ٹی جی ایم آر آئی ای ایس کی طالبہ مشتبہ حالت میں جاں بحق، چیئرمین فہیم قریشی کی خاموشی قابل تشویش

ظہیر آباد: 22 دسمبر (پٹریاٹک ویوز) تلنگانہ گورنمنٹ مینارٹی ریسیڈینشل اسکول بوچنلی میں نویں جماعت کی طالبہ صادیہ مہیم کے مشتبہ حالت میں انتقال نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ 14 سالہ صادیہ مہیم، دختر شیخ آصف، ساکن جمال کالونی ظہیر آباد، کھانے کے بعد اچانک بے ہوش ہو گئی اور بعد میں انتقال کر گئی۔ والد کے مطابق انہیں رات 9:45 بجے اطلاع دی گئی، حالانکہ لڑکی شام 8:00 بجے گر گئی تھی۔
اسکول انتظامیہ کی غفلت
اسکول انتظامیہ نے والدین کو تاخیر سے اطلاع کیوں دی؟ اس اہم وقت کے ضیاع نے صادیہ کی جان بچانے کے امکانات کم کر دیے۔ مزید یہ کہ اسکول کا سی سی ٹی وی نظام غیر فعال ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس کی وجہ سے واقعے کی تفصیلات جانچنا مشکل ہو گیا ہے۔
طبی امداد میں تاخیر اور مسائل
صادیہ کو پہلے ظہیر آباد کے سرکاری اسپتال لے جایا گیا، پھر سنگاریڈی کے گورنمنٹ اسپتال منتقل کیا گیا۔ بعد میں، اسے ہوپ نیورو ملٹی اسپیشلٹی اسپتال لے جایا گیا، جہاں والد سے 50,000 روپے طلب کیے گئے، لیکن وہ صرف 30,000 روپے ادا کر سکے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے بچی کو گاندھی اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں صبح 4 بجے اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔
امجد اللہ خان کی سخت تنقید
مجلس بچاؤ تحریک کے ترجمان امجد اللہ خان نے اس واقعے کو اقلیتی اسکولوں کی انتظامیہ کی ناکامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات میں غفلت برتنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، "جب اقلیتی طلبہ کے معاملات آتے ہیں تو حکومت اور متعلقہ ادارے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔”
چیئرمین فہیم قریشی کی خاموشی پر سوال
امجد اللہ خان نے ٹی جی ایم آر آئی ای ایس کے چیئرمین فہیم قریشی کی خاموشی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے کسی قسم کا بیان یا وضاحت نہ آنا ان کی غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے۔ ایسے واقعات میں اسکول کے اعلیٰ حکام کی خاموشی مزید مسائل پیدا کرتی ہے۔
حکومت اور اقلیتی اداروں سے مطالبہ
امجد اللہ خان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی فوری اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ واقعے کے اصل حقائق سامنے آئیں۔ اسکول کے سی سی ٹی وی نظام کو فوری طور پر فعال بنایا جائے اور حفاظتی اقدامات کو سخت کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک ممکن ہو۔ اسکول انتظامیہ اور چیئرمین کی غفلت پر سخت کارروائی کی جائے اور متاثرہ طالبہ کے والدین کو فوری مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے دکھ کا مداوا کر سکیں۔ یہ اقدامات نہ صرف انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے بلکہ اقلیتی طلبہ اور ان کے والدین کا تعلیمی اداروں پر اعتماد بھی بحال کریں گے۔
یہ واقعہ اقلیتی طلبہ کے تحفظ اور اعتماد کے لیے ایک امتحان ہے۔ حکومت کو اس معاملے پر فوری کارروائی کرنی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔