بدھ 12 صفر 1447هـ
#حیدرآباد #مضامین

والدین کی ذمہ داریاں قرآن وحدیث کی روشنی میں

مولانا محمد ریاض احمد قادری حسامی
(ناظم مدرسہ اسلامیہ ریاض العلوم فلک نما)

انسانی زندگی کی بنیاد علم اور تربیت پر قائم ہے۔ یہ دونوں عناصر انسان کی شخصیت کو شعور، بصیرت اور صحیح سمت عطا کرتے ہیں۔ علم وہ روشنی ہے جو انسان کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر فہم و ادراک کے راستے پر گامزن کرتی ہے، جبکہ تربیت وہ عمل ہے جو انسان کے کردار کو سنوارتی ہے اور اسے ایک مہذب اور ذمہ دار فرد بناتی ہے۔ علم کے بغیر انسان ادھورا ہے، اور تربیت کے بغیر بے سمت۔ علم انسانی ذہن کو وسعت اور بصیرت عطا کرتا ہے، جبکہ تربیت شخصیت میں وہ خوبصورتی پیدا کرتی ہے جو انسان کو دوسروں کے لیے فائدہ مند بناتی ہے۔
اسلام میں علم اور تربیت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اسلام نے علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا اور تربیت کو دین کا لازمی حصہ بنایا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔ یہ فرمان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ علم کی طلب اسلام میں ایک بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ، قرآن و حدیث میں تربیت، یعنی تزکیۂ نفس پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ انسان علمی طور پر مضبوط ہونے کے ساتھ اخلاقی اور عملی طور پر بھی بہترین بن سکے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا تعلیم اور تربیت کی اہمیت کو واضح کرتی ہے، جیسا کہ قرآن میں ذکر ہوا:
’’”اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج، جو ان پر تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کو پاکیزہ کرے‘‘۔ (سورہ بقرہ: ۱۲۹)
یہ دعا نبی اکرم ﷺ کے لیے تھی، جو نہ صرف تعلیم دینے والے معلم تھے بلکہ عملی طور پر تربیت کرنے والے بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
’’”بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا، جو ان پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتا ہے، انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔ (سورہ آل عمران: ۱۶۴)
یہاں تربیت کو تعلیم پر مقدم رکھا گیا تاکہ انسان کو علم کے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے قابل بنایا جا سکے۔
انسانی تربیت کی ابتدا والدین سے ہوتی ہے۔ ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے، جہاں سے اس کی شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ ایک مشہور حدیث میں آیا ہے:
’’”ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں‘‘۔ یہ حدیث اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ والدین کی تربیت کس حد تک بچے کی زندگی اور عقیدے پر اثر انداز ہوتی ہے۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی مثال ہمارے لیے سبق آموز ہے۔ ان کی والدہ نے دوران حمل قرآن پاک کے سترہ پارے حفظ کیے، جس کا اثر حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی ابتدائی زندگی پر ظاہر ہوا۔ یہ بتاتا ہے کہ والدین کے اعمال اور کردار کس طرح اولاد کی شخصیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
عمل کے بغیر نصیحت کا اثر محدود رہتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کردار کو بہتر بنائیں تاکہ ان کی نصیحت مؤثر ہو۔ نبی کریم ﷺ کے ایک مشہور واقعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے جب ایک عورت اپنے بیٹے کو شکر کھانے سے روکنے کے لیے آپ ﷺ کے پاس آئی۔ آپ ﷺ نے فوراً نصیحت کرنے کے بجائے ایک دن کا وقت لیا تاکہ پہلے خود شکر کھانے سے باز رہ سکیں۔ یہ واقعہ والدین اور اساتذہ کے لیے ایک سبق ہے کہ نصیحت سے پہلے اپنے عمل کو درست کریں۔
علماء کرام نے تربیت کے تین اہم مراحل بیان کیے ہیں۔ پہلے سات سال میں بچوں کو محبت اور شفقت سے پالا جائے، انہیں آزادانہ طور پر اپنی شخصیت تشکیل دینے کا موقع دیا جائے۔ سات سے بارہ سال کی عمر میں نظم و ضبط اور دینی و دنیاوی تعلیم دی جائے۔ بارہ سال کے بعد بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنایا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل بلا جھجک والدین کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ نبی کریم ﷺ نے بچوں کی تربیت کے لیے انہی اصولوں پر عمل کیا۔ سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دیا اور دس سال کی عمر میں اس پر سختی کی گئی، جو تربیت کے مرحلہ وار اصولوں کی بہترین مثال ہے۔
آج کے دور میں والدین اور اساتذہ کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی، معاشرتی دباؤ اور اخلاقی بحران کے باعث بچوں کی تربیت مزید مشکل ہو گئی ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے محفوظ گھریلو ماحول فراہم کریں، ان کے ساتھ وقت گزاریں اور انہیں ایسی صحبت فراہم کریں جو ان کی شخصیت کو سنوارے۔ علم اور تربیت کے ذریعے ہی ایک فرد کو مہذب اور صالح انسان بنایا جا سکتا ہے، اور یہی انسانیت کی ترقی کا ضامن ہے۔
قرآن مجید اور احادیث نبویہ ﷺ میں اولاد کی دینی اور علمی تربیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں اولاد کو دین اسلام کے بنیادی عقائد، اخلاقی اقدار اور عبادات کی تعلیم دینا والدین کی اولین ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
اسلام نے والدین پر اپنی اولاد کی دینی، اخلاقی اور علمی تربیت کو واجب قرار دیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ ﷺ میں بار بار اس اہم ذمہ داری کی تاکید کی گئی ہے۔ یہ تربیت نہ صرف بچوں کو ایک نیک اور صالح انسان بناتی ہے بلکہ ان کی دنیاوی اور آخرت کی کامیابی کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہے۔قرآن مجید میں والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو نیک اعمال کی ترغیب دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا (سورہ طٰہٰ: ۱۳۲) "اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر قائم رہو۔”اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ بچوں کو دین کی بنیادوں پر مضبوط کرنے کے لیے والدین کا عملی نمونہ ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحتوں کو بیان کیا گیا ہے، جو والدین کے لیے ایک بہترین رہنما اصول ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (سورہ لقمان: ۱۳) "اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔”یہ نصیحت اس بات پر زور دیتی ہے کہ عقیدۂ توحید کی تعلیم والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔نبی کریم ﷺ نے والدین کو اپنی اولاد کے اخلاق سنوارنے کی خصوصی تاکید فرمائی۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدَهُ أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ (ترمذی) ’’والد اپنی اولاد کو بہترین تحفہ اچھا ادب و اخلاق دے سکتا ہے۔‘‘ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اولاد کی بہترین پرورش ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے میں پوشیدہ ہے۔اسلامی تعلیمات میں عملی تربیت کی اہمیت بھی واضح ہے۔ والدین کو نہ صرف بچوں کو نصیحت کرنی چاہیے بلکہ خود بھی ان اصولوں پر عمل کر کے ایک عملی مثال پیش کرنی چاہیے۔ محبت اور حکمت کے ساتھ بچوں کو دین سکھانا، ان کے لیے اچھے ماحول کی فراہمی اور نیک صحبت کا اہتمام کرنا والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔مختصر یہ کہ اسلام نے اولاد کی دینی و اخلاقی تربیت کو والدین کی اولین ذمہ داری قرار دیا ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق تربیت یافتہ اولاد نہ صرف والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنتی ہے بلکہ ایک مضبوط اسلامی معاشرے کی تعمیر میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات ہمیں یہ واضح کرتی ہیں کہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کو دین کی بنیادوں پر مضبوط کریں۔ یہ صرف نصیحت کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ والدین کو عملی نمونہ بن کر بچوں کے سامنے دین کی خوبصورتی کو پیش کرنا ہوگا۔
علم اور تربیت انسانی زندگی کے دو ایسے پہلو ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔ والدین، اساتذہ، اور معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ علم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیں۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اگر ہم ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کریں، تو نہ صرف ہماری نسل کامیاب ہوگی بلکہ ہمارا معاشرہ بھی امن، سکون، اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے عمل اور کردار سے بچوں کے لیے ایک مثالی نمونہ بنیں تاکہ ان کی تربیت ایک صالح نسل کی بنیاد بن سکے۔

اسلام ایک مکمل دین ہے جو ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ بیٹے اور بیٹی کے حوالے سے اسلام کی تعلیمات ہمیں عدل، محبت، اور احترام کا درس دیتی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض والدین بیٹے کی پیدائش پر خوشی مناتے ہیں اور بیٹی کی پیدائش پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں، جو جاہلیت کی نشانی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ’’”اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت، جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔‘‘ (سورۃ الشوریٰ: 49)
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ اولاد دینا یا نہ دینا، اور بیٹے یا بیٹی کا عطا کرنا، اللہ کی مرضی ہے۔ یہ ہماری آزمائش اور نعمت ہے، اس میں کسی قسم کی ناراضگی یا پسند و ناپسند کا اظہار ایمان کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیٹیوں کا ذکر بھی پہلے فرماتے ہوئے ان کی عظمت اور مقام و مرتبہ کو سمجھایا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے بیٹیوں کی پرورش پر جنت کی خوشخبری دی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں اچھے اخلاق سکھائے، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (ابوداؤد) یہ فضیلت ان لوگوں کے لیے ہے جو بیٹیوں کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہیں اور ان کی پرورش کو اپنے لیے باعث برکت جانتے ہیں۔
اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، اور بیٹوں کو فخر کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جاہلیت کو ختم کیا اور بیٹیوں کو عزت دی۔ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں: ’’اور جب کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غمگین ہوتا ہے۔‘‘ (سورۃ النحل: 58)
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اولاد اللہ کی عطا ہے، چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی۔ بیٹی کو رحمت اور بیٹے کو نعمت سمجھنا چاہیے۔ بیٹیوں کی قدر و منزلت کو سمجھیں اور انہیں برابر محبت اور حقوق دیں تاکہ معاشرے میں انصاف اور برکت کا ماحول پیدا ہو۔
اولاد کو نصیحت اور عبادات کی تعلیم دینا
حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت: قرآن مجید میں حضرت لقمان علیہ السلام کا ذکر آتا ہے، جنہوں نے اپنے بیٹے کو عقیدہ، عبادات، اور اخلاقیات کے متعلق نصیحت کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’”اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ (سورۃ لقمان: 13) اس کے بعد حضرت لقمان نے نماز قائم کرنے، نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے، اور صبر کرنے کی تلقین کی: ’’”اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو، بھلائی کا حکم دو، برائی سے روکو، اور جو مصیبت تم پر آئے اس پر صبر کرو۔ (لقمان: 17)
یہ نصیحتیں والدین کے لیے رہنما اصول ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو ایمان، عبادات، اور اخلاق سکھائیں۔
نماز کی تاکید: اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: "’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس پر قائم رہو۔‘‘ (سورۃ طہٰ: 132)
۱۔ بچپن سے عبادات کی ترغیب:
رسول اللہ ﷺ بچوں کو عبادات سکھانے کے لیے نرم رویہ اختیار کرتے تھے۔ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ آپ ﷺ کے محبت بھرے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو محبت اور حکمت سے دین کی باتیں سکھانی چاہئیں۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دعا سکھائی: ’’”اے بچے! میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں: اللہ کا حق پہچانو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ (ترمذی)
یہ والدین کے لیے ایک مثال ہے کہ بچوں کو عبادات کی تربیت نرمی اور حکمت کے ساتھ دی جائے۔
نصیحت کا طریقہ
بچوں سے محبت اور شفقت کے ساتھ بات کریں۔
انہیں عمل کے ذریعے سکھائیں، جیسے والدین خود عبادات کریں۔
بچوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں اچھے اعمال پر انعام دیں۔
اللہ کے احکامات کی حکمت اور فوائد بتائیں تاکہ وہ شوق سے عبادات کریں۔
والدین کی دعائیں اولاد کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ قرآن مجید میں انبیاء کرام کی عظیم دعائیں ہمیں سکھاتی ہیں کہ اللہ سے کیسے دعا کی جائے اور کن چیزوں کو اہمیت دی جائے۔ ان دعاؤں میں دنیاوی نعمتوں کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابی کی خواہش شامل ہے۔
بچوں کیلئے ماں باپ کی دعائیںاور ان کی اہمیت:
انبیاء کرام کی دعائیں : اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔” (سورۃ الفرقان: 74)
یہ دعا ظاہر کرتی ہے کہ اولاد صرف دنیاوی فخر کا ذریعہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان کی تربیت ایسی ہو کہ وہ والدین کے لیے سکون اور دین کے لیے رہنما بنیں۔ اور اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! میری دعا قبول فرما۔” (سورۃ ابراہیم: 40) اسی طرح "اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔” (سورۃ الانبیاء: 89)
یہ دعا حضرت زکریا علیہ السلام نے مانگی، جو صالح اولاد کے لیے ایک فطری خواہش کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ دعا ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اولاد کی دعا ہمیشہ اللہ کی مرضی اور حکمت پر بھروسے کے ساتھ مانگی جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: والد کی دعا اولاد کے لیے رد نہیں کی جاتی۔ (ابوداؤد)
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ والدین کی دعا اللہ کے ہاں بہت قدر و قیمت رکھتی ہے۔ ان دعاؤں کے ذریعے والدین نہ صرف اپنی اولاد کی دنیاوی زندگی بلکہ آخرت بھی سنوار سکتے ہیں۔
بچوں کے لیے دعائیں کیسے کریں؟
انبیاء کی دعاؤں کو اپنی زندگی میں شامل کریں۔
اخلاص کے ساتھ دعا کریں اور اپنے بچوں کیلئے خیر کی توقع رکھیں۔
دعا کے ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیں تاکہ دعائیں اثر پذیر ہوں۔
ہر نماز کے بعد اور خاص مواقع پر بچوں کیلئے دعا کو معمول بنائیں۔
والدین کے آپسی جھگڑوں کا بچوں پر اثر:
والدین کے آپسی جھگڑے بچوں کی شخصیت پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ اسلام نے میاں بیوی کے تعلق کو محبت، سکون، اور رحمت کی بنیاد پر قائم کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔‘‘ (سورۃ الروم: 21)۔ جب والدین ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں، تو بچوں کے دل میں خوف اور عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی جذباتی، ذہنی، اور اخلاقی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ جھگڑوں کی فضا میں بچے نہ تو دین کی تعلیمات سے فیض یاب ہو پاتے ہیں اور نہ ہی اخلاقی طور پر مضبوط ہو سکتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو۔‘‘ (ترمذی)۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو بچوں کے سامنے لانے سے گریز کریں اور تحمل و حکمت سے حل کریں۔ جھگڑوں کی وجہ سے بچے والدین کی عزت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور باغیانہ رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ان کے دل میں والدین کے لیے ناراضی اور بدگمانی پیدا ہو جاتی ہے، جو ان کے رشتے کو مزید کمزور کر دیتی ہے۔ گھر کا پر سکون ماحول بچوں کی تربیت کے لیے لازم ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ (سورۃ التحریم: 6) اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو نہ صرف دین کی تعلیم دیں بلکہ ان کے لیے ایک عملی نمونہ بھی پیش کریں۔
والدین کے جھگڑوں کی وجہ سے بچے اپنی توجہ کھو دیتے ہیں اور اکثر غیر اخلاقی رویے اپنانے لگتے ہیں، جیسے جھوٹ بولنا یا غصہ کرنا۔ اس کا حل یہ ہے کہ والدین اپنے رویے کو درست کریں، ایک دوسرے کو معاف کرنے اور صبر کرنے کا رویہ اپنائیں، اور اپنے گھریلو مسائل کو بچوں سے دور رکھیں۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہمارے لیے رہنما ہے: ’’والد کی دعا اولاد کے لیے رد نہیں کی جاتی۔‘‘ (ابوداؤد)۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے دعا کریں اور اللہ سے مدد مانگیں کہ وہ ان کے گھریلو معاملات کو بہتر بنائے۔
والدین کو اپنے گھروں میں محبت اور سکون پیدا کرنے کے لیے دین کی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے۔ جھگڑے نہ صرف اولاد کی دنیاوی زندگی بلکہ ان کی آخرت کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے گھروں کو سکون کا گہوارہ بنائے اور ہماری اولاد کو نیک اور صالح بنائے۔ اسی لئے اکابرین اور بزگوں نے بتایاہےکہ ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کے سامنے ہمیشہ ایک دوسرے کیلئے عزت و احترام والی باتیں پیش کریں اور اسی کے ذریعہ اولاد کے دل میں وہ ایک دوسرے کا احترام بٹھا سکتے ہیں ۔
اولاد کو وقت دینا:
اولاد کو وقت دینا والدین کی ایک اہم ذمہ داری ہے، جس کی تاکید اسلام میں بھی کی گئی ہے۔ بچوں کی تربیت اور ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لیے والدین کا ان کے ساتھ وقت گزارنا نہایت ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کرتے اور ان کے ساتھ وقت گزارتے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اولاد کے ساتھ نرمی برتو اور ان کے درمیان عدل کرو۔‘‘ (ابوداؤد)
بچوں کو وقت دینے کا مطلب یہ ہے کہ والدین ان کی باتیں سنیں، ان کے مسائل کو سمجھیں، اور ان کی شخصیت سازی میں کردار ادا کریں۔ جب والدین اپنے بچوں کو وقت دیتے ہیں تو ان کے دل میں تحفظ اور محبت کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو ان کی ذہنی اور جذباتی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ اگر والدین مصروفیت کے باعث بچوں کو وقت نہیں دیتے تو وہ تنہائی محسوس کرنے لگتے ہیں اور غلط صحبت یا سرگرمیوں کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ (سورۃ التحریم: 6) اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کی دینی اور دنیاوی تربیت کے لیے وقت دینا چاہیے تاکہ وہ نیک اور صالح بن سکیں۔ بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کے دوران انہیں دین کی تعلیمات سکھانا، اچھے اخلاق کی تربیت دینا، اور ان کی دلچسپیوں کو سمجھنا والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
والدین اگر اپنی مصروف زندگی سے کچھ وقت نکال کر بچوں کے ساتھ گفتگو کریں، کھیلیں، اور ان کی تربیت پر توجہ دیں تو یہ نہ صرف ان کے رشتے کو مضبوط بنائے گا بلکہ بچوں کی شخصیت میں بھی نکھار آئے گا۔ بچوں کو دیا گیا وقت والدین کی بہترین سرمایہ کاری ہے جو ان کی دنیا و آخرت سنوار سکتی ہے۔
٭٭٭

والدین کی ذمہ داریاں قرآن وحدیث کی روشنی میں

10 تولہ سونے کے زیورات سے بھرا

والدین کی ذمہ داریاں قرآن وحدیث کی روشنی میں

تلنگانہ حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی: دسویں

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے