بدھ 12 صفر 1447هـ

مسلم خواتین اپنی قوم کی عزت و وقار ہیں


مولانا محمد ریاض احمد قادری حسامی
(ناظم مدرسہ اسلامیہ ریاض العلوم فلک نما)


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں صبر و تحمل اور ایمان پر استقامت کو بنیادی ارکان کی حیثیت حاصل ہے۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کو زندگی کی آزمائشوں میں صبر کا مظاہرہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور ساتھ ہی شوہر کی وفاداری اور اطاعت کو ازدواجی زندگی میں بڑی فضیلت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ان اعمال کو دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
صبر و تحمل کی فضیلت: صبر ایک ایسی صفت ہے جو ہر مومن کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں: "بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے” (البقرۃ: ۱۵۳)۔ صبر کا مطلب محض مشکلات کو برداشت کرنا نہیں، بلکہ اللہ کی رضا میں راضی رہنا اور ہر حالت کو حکمت کے ساتھ قبول کرنا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کے ہر حال میں بھلائی ہے” (مسلم)۔ صبر کرنے والے مومن کو ہر حالت میں اجر ملتا ہے، چاہے خوشی ہو یا غم۔
شوہر کے ساتھ وفاداری اور فرمانبرداری: اسلام میں شوہر کی وفاداری اور اطاعت بیوی کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جب عورت پانچ وقت کی نماز ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے، تو اسے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہو جاؤ” (ترمذی)۔ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیوی کے لیے شوہر کی اطاعت اور وفاداری دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔
شوہر اور بیوی کے درمیان حسن سلوک: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "دنیا کی زندگی ایک متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے” (مسلم)۔ ایک صالح بیوی جو اپنے شوہر کے ساتھ محبت، عزت اور وفاداری سے پیش آتی ہے، وہ دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اسلامی ازدواجی زندگی میں شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور محبت بھرے تعلقات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
علامہ حسام الدین فاضلؒ جو مولانا عاقلؒ کے والد بزرگوار ہیں، وہ ایک مرتبہ عثمانیہ یونیورسٹی کے ایک اہم خواتین کے سمینار میں شریک تھے، جہاں کسی خاتون نے کہا میاں اور بیوی ایک گاڑی کے دوپہئے ہیں، کسی ایک پہئے کے بغیر گاڈی نہیں چل سکتی، اسی طرح زندگی بھی نہیں چل سکتی۔ جب علامہ فاضلؒ کا خطاب شروع ہوا تو انہوں نے خاتون کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا صحیح ہے میاں اور بیوی ایک گاڑی کے دو پہئے ہیں، لیکن پہئے آگے پیچھے رہے تو اچھا ہے، دونوں ایک جگہ لگائے تو گاڑی ہوندی ہوجاتی۔ اسی طرح قرآن نے جس طرح مرد کو قوام بنایا ہے، اس کی اہمیت خواتین کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اسی طرح مرد کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے حقوق کو صحیح طور پر ادا کرے۔
ایمان پر استقامت: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی بھی موت کے وقت اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھے بغیر نہ مرے” (مسلم)۔ اس حدیث سے ایمان پر استقامت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، یعنی ہر حالت میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور اس کے احکامات پر عمل پیرا رہنا ضروری ہے۔
خواتین کی مثالی شخصیات
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا: اسلام قبول کرنے والی پہلی خاتون اور نبی کریم ﷺ کی پہلی زوجہ تھیں۔ انہوں نے نہ صرف آپ کے نبی ہونے کی تصدیق کی بلکہ اپنے مال و دولت کو دین کی خدمت کے لیے وقف کیا۔ حضرت خدیجہؓ نے مکہ کے کفار کی جانب سے دی جانے والی تکالیف اور بائیکاٹ کے دوران نبی کریم ﷺ اور مسلمانوں کی مدد کی۔ ان کی قربانیوں کے باعث اسلام کی ابتدائی ترقی ممکن ہوئی۔ وہ نبی کریم ﷺ کے لیے بڑا سہارا تھیں، اور ان کی وفات کو آپ کی زندگی میں ایک عظیم سانحہ سمجھا جاتا ہے۔
رسول ﷺ کیلئے آپ کی وفاداری امت کی مائوں کیلئے ایک اہم سبق ہے۔ اس دور میں شوہر کو بیوی سے تنگ نظر ‘ یا پھر مسلسل ناراض دیکھا جاتا ہے یا تو آپسی اختلافات کی وجہ سے بیوی اپنے شوہر کے دل سے اپنی اہمیت کھو بیٹھتی ہے، اکابرین نے اکثر اس سے بچنے کی ترغیب دیتے ہوئے پانچ خاص باتوں کی طرف اشارہ کیا کہ ان پانچ کاموں سے اکثر خواتین اپنے شوہر کے دل سے اپنی عظمت کھو دیتی ہیں، جن میں (۱) زبان درازی (۲) شوہر کی باتوں کا غلط مطلب نکالنا (۳) شوہر کی خواہشوں کا احترام نہیں کرنا (۴) ضد میں ہر وہ کام کرنا جس سے شوہر نے منع کیا ہو (۵)احساس مند شوہر سے گلے شکوے کرنا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا: نبی کریم ﷺ کی سب سے پیاری بیٹی تھیں۔ ان کی زندگی سادگی، تقویٰ اور صبر کی بہترین مثال تھی۔ جب نبی کریم ﷺ کو کفارِ مکہ کی جانب سے اذیتیں دی گئیں تو حضرت فاطمہؓ ہمیشہ ان کا دفاع کرتی تھیں۔ حضرت فاطمہ نے مشکل ترین حالات میں اپنے شوہر حضرت علیؓ کے ساتھ زندگی بسر کی اور اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی، جس میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما بھی شامل ہیں۔ ان کی قربانی اور خدمات خاص طور پر اسلام کے ابتدائی دور کی خواتین کے لیے ایک مثال ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا: حضرت عائشہؓ نبی کریم ﷺ کی زوجہ تھیں اور علم و فہم میں غیر معمولی مقام رکھتی تھیں۔ آپ سے ہزاروں احادیث مروی ہیں، جن سے آج بھی فقہی مسائل اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں رہنمائی ملتی ہے۔ جنگ جمل میں حضرت عائشہؓ نے مسلمانوں کے معاملات میں اصلاح کی کوشش کی۔ ان کی علمی بصیرت اور فتاویٰ اسلامی شریعت کی بنیاد بنے۔ حضرت عائشہؓ نے کئی شاگرد تیار کیے اور اسلامی علم کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔لیکن اس دور میں لڑکیوں کو ڈاکٹر انجینئر یا دیگر علوم دینے کیلئے مسلمان ضرور فکر مند ہیں لیکن افسوس ہماری لڑکیاں تجوید سے قرآن بھی نہیں پڑھ پاتی ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علوم دینیہ سے ہماری دوری کس قدر بڑھتے جارہی ہے ۔
حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا: حضرت سمیہؓ کو اسلام کی پہلی شہیدہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ حضرت یاسرؓ کی بیوی اور حضرت عمار بن یاسر ؓکی والدہ تھیں۔ جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مکہ کے کفار نے انہیں سخت اذیتیں دیں، لیکن انہوں نے حق سے کبھی منہ نہیں موڑا۔ ابو جہل نے ان پر شدید تشدد کیا اور انہیں شہید کر دیا۔ حضرت سمیہ کی قربانی اسلام کے ابتدائی پیروکاروں کے لیے ایک تحریک بنی اور ثابت قدمی کی ایک عظیم مثال قائم کی۔
حضرت نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہا: حضرت نسیبہؓ جنہیں ام عمارہ بھی کہا جاتا ہے، مدینہ کی ایک انصاری خاتون تھیں۔ انہوں نے جنگ احد میں نبی کریم ﷺ کی حفاظت میں انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ جنگ کے دوران جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا تھا اور نبی کریم ﷺ کی جان کو خطرہ لاحق تھا، حضرت نسیبہ نے اپنے جسم پر شدید زخم کھائے لیکن اپنی جگہ سے پیچھے نہ ہٹیں۔ ان کا یہ حوصلہ اور ایمان مسلمانوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال ہے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں۔ ان کا کردار واقعہ کربلا کے بعد نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جب یزید کی فوج نے امام حسین اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا تو حضرت زینب نے دشمن کی قید میں بھی حق اور صداقت کا علم بلند رکھا۔ یزید کے دربار میں ان کی جرأت مندانہ تقریر نے باطل کے غرور کو چکنا چور کر دیا۔ انہوں نے اسلام کی عظیم قربانی کی داستان کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔
اسلام نے خواتین کو بلند مقام دیا ہے، اور ان کے صبر، تحمل، اور شوہر کے ساتھ وفاداری کو جنت میں داخلے کا ذریعہ بنایا ہے۔ آج کے دور میں جہاں "انپاورمنٹ” اور "آزادی” کے نام پر گمراہی پھیلائی جا رہی ہے، اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کا حقیقی انپاورمنٹ دین کی حدود میں رہتے ہوئے ہی ممکن ہے۔
مسلمان عورتیں اپنے کردار اور عظمت میں اپنی قوم کا وقار ہیں۔ ان کی پرورش، تربیت اور کردار سازی میں ایک اسلامی معاشرتی نظام کی بنیادی اہمیت ہے۔ اس تناظر میں مرد حضرات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے گھروں کو دین کی روشنی سے منور کریں۔ جمعہ کے خطبوں میں علماء کی نصیحتوں کو صرف مسجد تک محدود نہ رکھیں بلکہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بھی شیئر کریں۔ یہ عمل معاشرتی زندگی میں دین کی بنیادوں کو مضبوط کرے گا اور ایک دیندار ماحول کا قیام ممکن ہوگا۔وہیں خواتین کو دینی اجتماعات میں لے جانا اور ان کی دینی تعلیمی و تربیتی فکر کرنا مرد حضرات کی اہم ذمہ ادری ہے ۔
رشتوں میں دولت کی حیثیت: خواتین اور خصوصاً نوجوان لڑکیوں کی زندگی میں شادی اور رشتہ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، شادی کے معاملے میں دولت و حیثیت کو معیار بنانا ایک غیر اسلامی رجحان ہے۔ امیر شوہر کسی بھی وقت غریب ہو سکتا ہے اور غریب شوہر اللہ کے حکم سے کبھی بھی صاحبِ مال بن سکتا ہے۔ رشتوں کی بنیاد دولت و جائیداد پر رکھنا، نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ اس سے خاندان کے اندر بے سکونی اور اختلافات کی صورت بھی پیدا ہوتی ہے۔عدالتوں ‘ پولیس اسٹیشنوں میں کثیر تعداد مسلمانوں کی ہے جبکہ معمولی سے اختلافات پر طلاق ‘ خلع جیسے مسائل سے گزرنا پڑرہا ہے جو قابل تشویش ہے۔ بچیوں کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا لازم وضروری ہے۔
صبر و استقامت کی ضرورت: نئی نسل، جو مستقبل میں بیوی اور ماں کے کردار ادا کرے گی، اسے یہ سمجھانا ضروری ہے کہ حقیقی سکون مال و دولت میں نہیں بلکہ اللہ کے قرب میں ہے۔ انہیں یہ شعور دینا چاہیے کہ ان کی قسمت کا مالک اللہ ہے اور آزمائشوں پر صبر و استقامت کے ساتھ زندگی گزارنا ہی اسلامی طریقہ ہے۔ ہر مشکل وقت میں دعا اور عبادت کے ذریعے اللہ سے مدد مانگنے کی تربیت دینا اہم ہے۔ اگر خواتین کو یہ سمجھ آ جائے تو وہ نہ صرف اپنے گھر بلکہ پوری قوم کے لئے باعثِ خیر بن سکتی ہیں۔
اسلامی طرزِ زندگی کو اپنانا: اسلامی طرزِ زندگی اختیار کرنے کے لئے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو صرف دنیاوی مقاصد کے بجائے دین پر استقامت اور تقویٰ پر مبنی سوچ دیں۔ انہیں بتائیں کہ زندگی میں خوشی اور سکون کا راز دین کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے، نہ کہ دولت و حیثیت میں۔ خواتین کی تربیت اور دیندار ماحول کا قیام قوم کی ترقی اور اس کے کردار کی بلندی میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔
٭٭٭

مسلم خواتین اپنی قوم کی عزت و وقار ہیں

وی ستیا نارائنا، آئی پی ایس :

مسلم خواتین اپنی قوم کی عزت و وقار ہیں

محبت رسولؐ ایمان کا بنیادی جز :

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے