بدھ 12 صفر 1447هـ
#تلنگانہ #مضامین

ازدواجی زندگی میں سسرالی مداخلت

مولانا محمد ریاض احمد قادری حسامی : ناظم مدرسہ اسلامیہ ریاض العلوم فلک نما

ازدواجی زندگی ایک پاکیزہ رشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سکون اور محبت کے لئے بنایا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارے ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔(سورہ الروم: ۲۱)
لیکن بعض اوقات سسرالی مسائل اور ان کی غیر ضروری مداخلت اس رشتے کو پریشانیوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ یہ مسائل اکثر شوہر اور بیوی کے درمیان بداعتمادی، لڑائی جھگڑوں اور بعض اوقات طلاق تک پہنچا دیتے ہیں۔
سسرالی مسائل اور ان کی نوعیت
ہمارے معاشرتی ماحول میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ دونوں طرف کے والدین یا بہن بھائی ازدواجی زندگی میں غیر ضروری دخل اندازی کرتے ہیں۔ شوہر کے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بیٹے کی مکمل اطاعت بیوی کی ذمہ داری ہے، جبکہ بیوی کے والدین چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کی تمام باتیں مانی جائیں۔ اس غیر متوازن سوچ کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جیسے:
(۱) بیوی کو شوہر کے والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا اور اس کی ضروریات کو نظرانداز کرنا۔
(۲) شوہر کا بیوی کی شکایتیں اپنے والدین سے کرنا اور والدین کی باتوں پر بیوی کے خلاف فیصلہ لینا۔
(۳) دونوں طرف کے والدین کی طرف سے غیر ضروری دباؤ اور توقعات۔
(۴) شوہر اور بیوی کے درمیان باہمی فیصلوں میں مداخلت۔ اسلام نے ان مسائل کے حل کے لئے واضح رہنمائی فراہم کی ہے۔
شوہر اور بیوی کے حقوق : قرآن مجید میں شوہر کو حکم دیا گیا ہے: ’’”اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو‘‘ (سورہ النساء: ۱۹) اسی طرح حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہے۔‘‘ (ترمذی) بیوی کو بھی شوہر کے ساتھ عزت اور محبت کے ساتھ پیش آنے کی تاکید کی گئی ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کے کام کا حکم نہ دے۔
والدین کا احترام مگر حدود کے ساتھ: اسلام میں والدین کی خدمت اور احترام لازم ہے، لیکن ان کی طرف سے ازدواجی زندگی میں غیر ضروری مداخلت کی اجازت نہیں دی گئی۔ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی زندگی اس بات کی بہترین مثال ہے کہ والدین ازدواجی زندگی میں مداخلت نہیں کرتے بلکہ شوہر اور بیوی کو مل جل کر رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔
سسرالی رشتوں کی اہمیت: اسلام نے سسرالی رشتوں کے احترام اور محبت کو لازمی قرار دیا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو ہر حال میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے پر مجبور کرے۔ شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کو وہ حقوق دے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مقرر کئے ہیں۔
عملی اقدامات
(۱) باہمی گفتگو: شوہر اور بیوی کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے مسائل پر کھل کر بات کریں اور والدین کو ان مسائل سے دور رکھیں۔
(۲) فیصلہ سازی میں شراکت: تمام اہم فیصلے شوہر اور بیوی کو باہمی رضامندی سے کرنے چاہئیں۔
(۳) اسلامی تعلیمات پر عمل: ازدواجی مسائل کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کریں اور صبر و تحمل سے کام لیں۔
(۴) والدین کو سمجھائیں: والدین کو محبت اور نرمی سے سمجھائیں کہ ان کی مداخلت ازدواجی زندگی کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
نکاح کے بعد لڑکی اور لڑکے والوں کی ذمہ داریاں اور اسلامی حل: نکاح ایک مقدس رشتہ ہے جو مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس رشتہ کے بعد کے سماجی مسائل اکثر پیچیدہ ہو جاتے ہیں، خاص طور پر جب مالی ذمہ داریوں اور گھر کے دیگر معاملات میں مشکلات آتی ہیں۔ اکثر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ نکاح کے بعد لڑکیاں اپنے مسائل اپنے والدین سے رجوع کرتی ہیں یا پھر بعض صورتوں میں لڑکے والے مالی معاملات اور دباؤ کے تحت لڑکی کے والدین کو اس کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
لڑکی کے والدین کی ذمہ داری: اسلامی تعلیمات کے مطابق، نکاح کے بعد لڑکی کا پہلا حق شوہر پر ہے۔ شوہر کو اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، اور یہ ذمہ داری کسی بھی صورت میں لڑکی کے والدین پر نہیں آتی۔ لیکن بعض اوقات لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کو مدد فراہم کرتے ہیں، جو کہ ان کی محبت اور ذمہ داری کا اظہار ہوتا ہے۔ تاہم، جب یہ معمول بن جائے اور لڑکی کے والدین پر مالی بوجھ بڑھ جائے، تو یہ صورتحال غیر مناسب ہو سکتی ہے۔ لڑکی کے والدین کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی بیٹی کا شوہر ہی اس کا اولین ذمہ دار ہے۔
لڑکے کے والدین اور ان کی ذمہ داری: اسی طرح، لڑکے کے والدین بھی بعض اوقات لالچ کی بنا پر مالی مسائل اور ذمہ داریوں کا بوجھ لڑکی والوں پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ اسلامی اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ شوہر کو اپنی بیوی کے تمام حقوق اور ذمہ داریوں کا خیال رکھنا چاہیے، اور کسی بھی صورت میں لڑکی کے والدین سے اضافی رقم یا وسائل کی توقع کرنا مناسب نہیں ہے۔
اسلام میں مالی ذمہ داریوں کا حل: اسلامی تعلیمات میں واضح طور پر شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرے۔ شادی کے بعد مرد پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رہائش، خوراک، لباس، اور دیگر ضروریات فراہم کرے۔ اس کے باوجود اگر لڑکی کے والدین کسی صورت میں مدد کرتے ہیں، تو انہیں اس میں توازن برقرار رکھنا چاہیے اور لڑکی کے شوہر کو عزت اور احترام دینا چاہیے۔
ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام کے بغیر کوئی رشتہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اگر لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کے لیے وسائل فراہم کرتے ہیں، تو شوہر کو اسے تذلیل کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ بلکہ، وہ اپنی بیوی کے والدین کا شکر گزار ہو اور اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اس طرح کی صورتحال میں، اسلام ایک توازن کی تعلیم دیتا ہے، جہاں شوہر اور بیوی دونوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔
شادی کے بعد بعض اوقات لڑکی کے والدین اس قدر لاڈ پیار کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ان کی محبت اور حمایت میں اس بات کا دھیان نہیں رکھا جاتا کہ بیٹی کا پہلا تعلق اور سب سے اہم رشتہ اس کے شوہر سے ہے۔ جب لڑکی کے والدین اس کا خیال رکھنے میں حد سے بڑھ جاتے ہیں تو بیوی کو اپنے شوہر کی اہمیت کم محسوس ہوتی ہے، جو کہ رشتہ ازدواج کی بنیاد کو متاثر کرتا ہے۔ اس میں نہ صرف شوہر کی عزت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے بلکہ رشتہ میں دراڑ بھی آتی ہے۔ جب لڑکی کے والدین شوہر کے تعلق میں مداخلت کرتے ہیں تو یہ بات شوہر کے لیے دل آزاری کا سبب بنتی ہے، اور ایک وقت آتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے بے رخی اختیار کر لیتا ہے، یا علیحدگی کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب لڑکی کے والدین اسے اپنے گھر رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
پہلا بچہ پیدا ہونے کے بعد لڑکی کے والدین بعض اوقات مکمل طور پر اس کی مدد اور معاونت کا بوجھ اپنے کندھوں پر لے لیتے ہیں، خصوصاً جب بات بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کی آتی ہے۔ اگرچہ اس میں لڑکی کی والدہ کی محبت شامل ہوتی ہے، لیکن اس سے شوہر اور بیوی کے رشتہ میں توازن خراب ہو سکتا ہے۔ بچہ کی پرورش کے حوالے سے مکمل ذمہ داری لڑکی کے والدین پر ڈالنا، شوہر کے حقوق اور اس کی ذمہ داریوں کو کم کر سکتا ہے۔ یہ صورتحال بیوی اور شوہر دونوں کے درمیان فاصلہ پیدا کر سکتی ہے اور رشتہ میں تناؤ بڑھا سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں اس معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور بچے کی پرورش میں دونوں کے کردار کو برابر اہمیت دیں تاکہ رشتہ ازدواج مضبوط اور خوشگوار رہے۔
لڑکی والوں کی غفلت اور اس کے اثرات: کبھی کبھار لڑکی کے والدین کی غفلت بھی مسائل کو جنم دیتی ہے۔ وہ اپنی بیٹی کی شادی کے بعد اس کے مسائل کے بارے میں زیادہ حساس نہیں رہتے اور یہ توقع کرتے ہیں کہ لڑکے والے ہر مسئلہ حل کریں گے۔ جب لڑکی کی والدین اس کی زندگی کے مسائل میں شامل ہوتے ہیں تو لڑکی کی حیثیت متاثر ہوتی ہے اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم نہیں کر پاتی۔ اسلام میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنا چاہیے اور والدین کو اس کے ذاتی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔
ماں باپ کی جانب سے کی گئی سختی اور غیر ضروری مداخلت آج کئی رشتہ ازدواج کو متاثر کر رہی ہے، خاص طور پر جب بیٹیوں کے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً، کئی لڑکیاں اپنے شوہر سے علحدہ ہو کر اپنے والدین کے گھروں میں بوجھ بن کر رہ جاتی ہیں، اور ان کی عزت و وقار کم ہونے لگتی ہے۔ والدین کی محبت اگر حد سے بڑھ جائے اور وہ بیٹی کے فیصلوں میں مداخلت کرتے رہیں تو نہ صرف بیوی کے شوہر کے ساتھ تعلقات متاثر ہوتے ہیں، بلکہ بیوی کی عزت و وقار بھی مجروح ہو جاتی ہے۔
ایسی صورتحال میں لڑکیاں اپنے والدین کے گھر میں رہ کر بھی عزت کی زندگی نہیں گزار پاتیں۔ وہ اپنے بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں کی ذمہ داریوں میں اس طرح سے جکڑ کر زندگی گزارنے لگتی ہیں کہ گویا وہ ایک غلام کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔ یہ بات ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیٹی جب اپنے والدین کے گھر واپس آتی ہے تو اس کا موقف صرف ایک معاون یا بوجھ بن کر رہ جاتا ہے، جس سے اس کی ذاتی عزت اور خودمختاری بھی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، خاندان کے دیگر افراد کے درمیان تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہوتی ہے، اور لڑکی اپنے خاندان کے اصولوں کے تحت زندگی گزارنے لگتی ہے۔
یہ تمام حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ والدین کو اپنی بیٹی کے نکاح کے بعد اس کی ذاتی زندگی اور رشتہ ازدواج میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے، تاکہ وہ اپنی زندگی کا بہترین حصہ اپنے شوہر کے ساتھ گزار سکے اور خودمختار رہ کر اپنی عزت برقرار رکھ سکے۔
اسلام میں رشتہ ازدواج کی کامیابی کے لیے دونوں طرف کی ذمہ داریوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ لڑکے اور لڑکی دونوں کو اپنی ذاتی ضروریات کے حوالے سے ایک دوسرے سے شفاف گفتگو کرنی چاہیے اور مالی معاملات کو عزت اور احترام کے ساتھ حل کرنا چاہیے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا پورا خیال رکھنا چاہیے اور کسی بھی نوعیت کے دباؤ یا لالچ سے بچنا چاہیے۔ نکاح میں شراکت داری اور محبت کا پہلا اصول یہی ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور اپنے مسائل کو اسلامی تعلیمات کے مطابق حل کریں۔
نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے جس میں مالی ذمہ داریوں کا معاملہ دونوں طرف کے لوگوں کے درمیان توازن سے حل کرنا ضروری ہے۔ اسلام نے ان معاملات کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں تاکہ کوئی بھی فریق دوسروں پر بوجھ نہ ڈالے اور رشتہ ازدواج میں محبت، احترام اور سمجھداری برقرار رہے۔
ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لئے شوہر اور بیوی دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور نبھانا چاہئے۔ والدین اور دیگر سسرالی رشتے اگر محبت اور عزت کے ساتھ حدود میں رہتے ہوئے تعلقات قائم کریں تو ازدواجی زندگی سکون اور خوشی کا باعث بن سکتی ہے۔ اسلام نے ازدواجی زندگی کے مسائل کے بہترین حل فراہم کئے ہیں، جن پر عمل کر کے ہم اپنی زندگی کو کامیاب اور پر سکون بنا سکتے ہیں۔ ٭

ازدواجی زندگی میں سسرالی مداخلت

بی آر ایس کی طاقت سے کانگریس

ازدواجی زندگی میں سسرالی مداخلت

شمسن انفراٹیک کے نئے دفتر کا شاندار

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے