دل شکنی اور بدزبانی کے معاشرتی نتائج

مولانا محمد ریاض احمد قادری حسامی
ناظم مدرسہ اسلامیہ ریاض العلوم فلک نما
دل توڑنے اور سخت زبان درازی کا اثر نہ صرف ہمارے معاشرتی تعلقات بلکہ ہماری آخرت پر بھی بہت گہرا پڑتا ہے۔ اسلام میں دل آزاری اور بدزبانی کی سخت مذمت کی گئی ہے، کیونکہ یہ اعمال نہ صرف دوسروں کے دلوں کو تکلیف دیتے ہیں بلکہ ان کے حقوق کو بھی پامال کرتے ہیں۔
دل توڑنا ایک ایسا عمل ہے جو انسان کے جذبات کو مجروح کرتا ہے اور رشتوں میں دراڑیں ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: ’’اور جن لوگوں کے دل ایمان کی وجہ سے نرم ہو چکے ہیں، وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرتے ہیں‘‘ (الحجرات: ۱۰)۔ دل توڑنے والے انسان کے لئے اللہ کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (بخاری)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مومن کو ہر حال میں دوسرے لوگوں کے دلوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
دل شکنی کی ایک اور شکل اس دور میں سوشل میڈیا ہو چکی ہے جہاں من چاہی تہمتیں اور کسی بھی قسم کی طنزیہ پیغامات کو اکثر اپنے سوشل میڈیاپلیٹ فارمس پر پوسٹ کرتےہوئے شخصی ہدف کیا جانا بالخصوص مسلمانوں کا شیوہ بن چکا ہے جس سے کافی مـضر اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے دور میں دل شکنی کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے، جہاں لوگ بغیر کسی تحقیق یا سچائی کے دوسروں پر تہمتیں لگاتے ہیں اور طنزیہ پیغامات شائع کرتے ہیں۔ یہ عمل خاص طور پر مسلمانوں کے درمیان زیادہ عام ہو چکا ہے، جو ان کے رشتوں اور معاشرتی تعلقات کو متاثر کر رہا ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں تو اس سے معاشرتی اعتماد میں کمی آتی ہے‘ اسی طرح دل شکنی سے نفرت اور اختلافات بڑھتے ہیں، جس کی وجہ سے معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے، بے بنیاد الزامات اور طنزیہ پیغامات متاثرہ افراد کی عزت اور خود اعتمادی کو متاثر کرتے ہیں، جس سے ان کی نفسیاتی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، لہٰذا، ہمیں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے اور دوسروں کے حقوق اور احساسات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایک مہذب معاشرہ بنانے کے لیے ہمیں باہمی احترام اور نرمی کا رویہ اپنانا ہوگا۔
زبان کی حفاظت: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرے گا، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں‘‘ (بخاری)۔اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زبان کی حفاظت اور نرمی اختیار کرنا جنت کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ سخت زبان درازی نہ صرف دنیا میں نقصان دہ ہے بلکہ آخرت میں بھی سخت حساب کا سبب بن سکتی ہے۔ زبان سے دل آزاری نہ کرنا نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (بخاری)۔اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے زبان سے دوسروں کو تکلیف دینے سے منع فرمایا اور اسے ایمان کی علامت بتایا کہ ایک مسلمان کو اپنی زبان کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے تاکہ دوسروں کے دل نہ ٹوٹیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دل نہ توڑنا ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور ان کو گالیاں دیں اور بہت برا بھلا کہا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ خاموشی سے سنتے رہے اور کوئی رد عمل نہ دیا۔ جب اس شخص نے مزید بدزبانی کی، تو نبی کریم ﷺ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ جب حضرت ابوبکر نے جواب دینا شروع کیا، تو نبی کریم ﷺ وہاں سے چلے گئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بعد میں پوچھا کہ آپ ﷺ کیوں چلے گئے؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تک تم خاموش تھے، فرشتے تمہارے دفاع میں تھے، لیکن جب تم نے جواب دیا تو فرشتے چلے گئے اور شیطان آ گیا‘‘ (ابودائود)۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دل توڑنے یا سخت زبان کا استعمال نہ کرنا اور صبر کا دامن تھامے رکھنا اللہ کی خوشنودی اور فرشتوں کی مدد کا سبب بنتا ہے۔
واقعہ: حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی زبان کی نرمی حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ کسی نے گالی دی۔ آپ نے نرمی اور محبت سے اس شخص کو مخاطب کیا اور فرمایا:’’بھائی! اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے، تو مجھے بتاؤ، میں تمہاری مدد کروں گا‘‘۔ اس کے بعد اس شخص کا دل نرم ہو گیا اور وہ شرمندہ ہو کر معافی مانگنے لگا۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ زبان کی نرمی کس طرح سخت دلوں کو بھی موم کر سکتی ہے اور رشتہ داریوں میں محبت پیدا کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:’’اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو میں قریب ہوں، دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘ (البقرہ: ۱۸۶)۔ یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ دل کی حالت کو دیکھتا ہے، اور وہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے، خاص طور پر جب وہ تکلیف میں ہوں اور ان کے دل ٹوٹے ہوں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جب دل ٹوٹتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے قریب ہوتا ہے‘‘۔قرآن مجید اور احادیث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٹوٹے ہوئے دلوں اور عاجز بندوں کے قریب ہوتا ہے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں ٹوٹے دلوں کے ساتھ ہوں‘‘ (ابن ماجہ)۔اس حدیث قدسی سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان کو دکھ اور تکلیف پہنچتی ہے اور اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور قرب سے اس کا دل تسلی دیتا ہے۔
ہے جلوہ گاہ خدا مومنوں کے دن فاضل
لگے نہ ٹھیس خبردار ان آب گینوں کو
(علامہ فاضلؒ)
سخت زبان درازی انسان کی شخصیت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہ نہ صرف دوسروں کو دلی تکلیف پہنچاتی ہے بلکہ انسان کو خود غرض اور بے رحم بنا دیتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور میرے بندے ایسے ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ نرمی سے جواب دیتے ہیں‘‘ (الفرقان: ۶۳)
سخت زبان کا استعمال کرنے والا شخص نہ صرف دنیا میں اپنے ارد گرد کے لوگوں سے دور ہو جاتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اخلاق میں سب سے بہتر ہے‘‘ (ترمذی)۔رشتہ داری اور معاشرت پر اثردل توڑنے اور بدزبانی کا رشتہ داریوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ رشتے اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہیں اور انہیں قائم رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہتا ہے اور عمر میں اضافہ چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے‘‘ (بخاری)۔ اگر ہم اپنے رشتہ داروں کے ساتھ سخت زبان استعمال کریں گے یا ان کے دل توڑیں گے، تو یہ رشتے کمزور ہو جائیں گے اور معاشرتی نظام متاثر ہو گا۔ ایک دوسرے کی عزت اور احساسات کا خیال رکھنا ہی معاشرتی امن اور بھائی چارے کی بنیاد ہے۔آخرت میں پکڑاسلام میں دنیا کے اعمال کا آخرت میں حساب و کتاب رکھا جائے گا۔ دل توڑنے اور بدزبانی کرنے والوں کی آخرت میں سخت پکڑ ہو گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’سب سے زیادہ وہ شخص مفلس ہوگا جس کے پاس قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوٰۃ سب کچھ ہوگا، لیکن اس نے کسی کو گالی دی، کسی کا مال کھایا، کسی کا خون بہایا، تو اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی اور پھر بھی حساب باقی ہوگا، تو ان کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا‘‘ (مسلم)۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دل توڑنے اور زبان درازی کا انجام دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی ہوگا۔مولانا عاقلؒ اپنی پوری زندگی فرماتے تھےکہ اپنی زبان کی حفاظت آسانی سے کی جا سکتی ہے کہ بات کم کریں اور جو بھی بات کریں وہ عقل اور سمجھ داری کے ساتھ کریں مولانا اکثر یہ شعر ماتے تھے۔
عاقل کیلئے قاضی حاجات ہے بات
غافل کیلئے یورش آفات ہے بات
ہے بات ہی مشکل جو نہ کرنی کرنی آئے
کرنی اگر آئے تو کرامات ہے بات
اسلام ہمیں نرمی، محبت اور ایک دوسرے کے دلوں کا خیال رکھنے کا درس دیتا ہے۔ ہمیں اپنے الفاظ اور اعمال کا سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے تاکہ نہ تو دنیا میں رشتے خراب ہوں اور نہ ہی آخرت میں پکڑ کا سامنا کرنا پڑے۔ اور سماج میں دیکھا یہ بھی جاتا ہے کہ بعض لوگ کسی کے مظالم ‘ یا بدتمیزی کو برداشت کرتے ہیں تو ظالم کمزور بے عقل سمجھتے ہیں جبکہ یہ اس کے اخلاق ہوتے ہیں اور اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دلوں کو نرم رکھنے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
دل ٹوٹا اس کی شان بڑی‘ یہ مسکن رب علیٰ ٹھہرا
جو ٹوٹ کے بھی ہو بیش بہا‘ اس موتی کی قیمت کیا کہنا
(علامہ عاقل حسامیؒ)