دکنی خطابی اسلوب کی انفرادیت ‘ اور سلسلہ حسامیہ کی خدمات

از قلم :محمد ریاض احمد قادری حُسامی (ناظم مدرسہ اسلامیہ ریاض العلوم فلک نما و خلیفہ مولانا ثانی عاقل جعفرپاشاہ قبلہ)
حیدرآباد دکن کی پہچان جہاں اس کی تہذیب، تمدن، ثقافت، علمی و ادبی کارنامے، یہاں کا بین المذاہب بھائی چارہ، اور زبان کی شیرینی ہے، وہیں ایک اور انفرادی خصوصیت دکنی اندازِ خطابت بھی ہے، جو نہ صرف دلوں کو چھو لینے والا ہے بلکہ صدیوں سے دلوں پر راج کرتاچلا آرہا ہے ۔
یہ طرزِ خطابت، صرف ایک لب و لہجہ کی پہچان ہی نہیں بلکہ اصلاحی تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔دکنی زبان کا یہ دل نشین انداز عوام کو دین کی طرف راغب کرنے، سمجھانے، اور عمل پر ابھارنے کا ایک نہایت مؤثر ذریعہ بن چکا ہے۔سلسلۂ حُسامیہ کے بزرگوں نے اس منفرد خطابی اسلوب کو اختیار کیا اور پھر اسے دکن اور بیرونِ دکن اور دنیا کے دیگر خطوں میں بھی متعارف کروا کر دینی پیغام کو عام فہم اور مؤثر انداز میں پیش کرنے کی عظیم خدمت انجام دی۔
علامہ حسام الدین فاضل رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ حمید الدین عاقل حُسامی رحمۃ اللہ علیہ جیسے بزرگوں نے اسی طرز خطابت کو اپنایا اور اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ان حـضرات کا یہ دکنی طرز خطاب ، دل کو چھو لینے والا اور روح کو بیدار کرنے والا ہوتا تھا۔یہ دکنی زبان میں وعظ و نصیحت صرف زبان کی لذت ہی نہیں، بلکہ فکرو فہم، حکمت ودانائی اور دین کی روشنی کا مجموعہ ہے۔
اس روایت کو آج بھی مولانامحمد حسام الدین ثانی عاقل جعفر پاشاہ دامت برکاتہم جو سلسلۂ حُسامیہ کے موجودہ میر کارواں ہیں جو اس سلسلہ کو نہایت ہی خوبصورتی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کے خطابات میں جہاں دلائل کی روشنی ہے، وہیں زبان کی سادگی بھی ہے جہاں زبان کی تاثیر اور عوامی ذہنوں پر گہرا اثرچھوڈنے کا البیلہ اسلوب ہےوہیں لوگوں کے ذہنوں تک رسائی کی عظیم طاقت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا جعفر پاشاہ صاحب کو کو صحت و سلامتی عطا فرمائے اور ان کا سایہ دراز فرمائے، آمین۔
سلسلہ حسامیہ کے بزرگان کی برکت سے آج دکنی اندازِ خطابت مدارس، مشائخین، علماء اور دیگر محافل میں نہ صرف سنا جا رہا ہے بلکہ اپنایا بھی جا رہا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دکنی انداز خطابت پر صرف سلسلہ حسامیہ کی گرفت ہی نہیں بلکہ یہ تمام دکنی باشندوں کا مشترکہ اثاثہ ہے ۔ماضی میں کچھ حلقوں کی طرف سے اس انداز پر تنقید کی جاتی تھی، مگر یہ سچائی بھی کسی سے چھپ نہ سکی کہ تنقید کرنے والے بھی اس کی سحر آفرینی سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکے۔
یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ دکنی انداز خطابت ایک ایسی دلی آواز ہے جو ہر سننے والے کو متاثر کرکر جاتاہے۔
اور علامہ اقبالؒ کا یہ شعر صادق آتا ہے
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
دکن کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں اس طرزِ بیان کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ اسے خطباء،علماء، صلحاء،اساتذہ اور نوجوان نسل کا بڑا طبقہ اسے اپنانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
یہ عظیم خطابی اسلوب ہماری شناخت بن چکا ہے‘ در اصل یہ ہمارے لئے ایک روحانی لطف کا ذریعہ ہے۔ اور ہمارے بزرگوں کی وہ امانت ہے، جسے آگے بڑھانا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
مولاناعاقل فرماتے تھے :
جیتے جی قدر بشر کی نہیں ہوتی حضرت
یاد آئے گی تمھیں میری وفاء میرے بعد
اللہ تعالیٰ ہمارے اس ورثے کو قائم و دائم رکھے اور ہمارے دلوں کو اس کی تاثیر سے روشن فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔