بدھ 12 صفر 1447هـ
#مضامین

“ازدواجی زندگی میں ناچاقی کے اسباب اور ان کے معاشرتی نقصانات: قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی

مولانامحمدریاض احمدقادری حسامی
ناظم مدرسہ اسلامیہ ریاض العلوم فلک نما

معاشرتی مسائل اور ان کے نتائج ہمیشہ ایک ایسا سبق پیش کرتے ہیں جو اگر سمجھ لیا جائے تو نہ صرف افراد بلکہ پورے معاشرے کی اصلاح ممکن ہے۔ ازدواجی زندگی، جو کہ محبت، اعتماد اور ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی پر مبنی ہونی چاہیے، اکثر انا، جہالت اور خودغرضی کی وجہ سے مسائل کا شکار ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر جب بیوی اپنی انا اور ضد کی وجہ سے شوہر کو کمتر سمجھتی ہے، اس پر حکم چلانے کی کوشش کرتی ہے یا اسے اپنی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو یہ رویہ نہ صرف شوہر کی عزت اور مقام کو ختم کر دیتا ہے بلکہ پورے خاندان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ایسے خاندان میں بچے بھی والد کے احترام سے ناواقف رہ جاتے ہیں اور خود بدزبان اور نافرمان بن جاتے ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ” (سورہ النساء: 34)۔ اس آیت میں مردوں کو خاندان کی ذمہ داری اور قیادت کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ جب خواتین اس قیادت کو تسلیم نہیں کرتیں اور شوہر کو کمتر سمجھنے کا رویہ اختیار کرتی ہیں، تو اس کے معاشرتی نقصانات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ یہ بچے، جو خاندان کا مستقبل ہیں، ایک غیر متوازن اور منفی ماحول میں پرورش پاتے ہیں، اور یہی رویہ وہ آگے اپنی زندگی میں بھی دہراتے ہیں۔

دوسری طرف جب مرد اپنی بیوی کے ساتھ ظلم کرتے ہیں، انہیں کمتر سمجھتے ہیں یا ان کے حقوق ادا نہیں کرتے، تو یہ بھی معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنی بیوی کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔” (ترمذی)۔ ظالم شوہر نہ صرف بیوی کو ذہنی اور جسمانی اذیت دیتا ہے بلکہ بچوں کے لیے بھی ایک غلط مثال قائم کرتا ہے، جس سے بچے نہ صرف اپنی ماں بلکہ والدین کے رشتے کی قدر سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔

ایسے حالات میں اکثر ازدواجی زندگی کا اختتام طلاق یا علیحدگی پر ہوتا ہے، جو نہ صرف میاں بیوی بلکہ ان کی اولاد کے لیے بھی ایک بڑا سانحہ ثابت ہوتی ہے۔ بچے، جو والدین کی محبت اور تربیت کے محتاج ہوتے ہیں، یتیمی یا بے سہارا ہو جاتے ہیں۔ ماں اور باپ اپنی نئی زندگیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور بچوں کو ہوسٹل یا رشتہ داروں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ بچے نہ صرف دینی و اخلاقی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ معاشرے میں جرائم اور بگاڑ کا حصہ بن سکتے ہیں۔

معاشرتی لحاظ سے یہ مسائل صرف خاندان تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جب میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے اور اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتتے ہیں، تو اس کے نتائج نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ازدواجی زندگی کے اصولوں پر عمل کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ” (سورہ النساء: 19) یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ۔

معاشرتی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔ شوہر بیوی کو محبت، عزت اور تحفظ فراہم کرے، اور بیوی شوہر کی اطاعت اور احترام کرے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “مومن ایک دوسرے کے لیے دیوار کی طرح ہیں، جو ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں۔” (بخاری)۔

معاشرتی مسائل کا حل صرف قرآن و حدیث کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے۔ اگر میاں بیوی صبر، تحمل اور محبت کا مظاہرہ کریں، تو نہ صرف ان کی اپنی زندگی بہتر ہو سکتی ہے بلکہ ان کے بچے اور نسلیں بھی بہتر انسان بن سکتی ہیں۔ یہی وہ سبق ہے جو ہمیں ان معاشرتی مسائل سے حاصل کرنا چاہیے تاکہ ہم اپنے معاشرے کو امن، محبت اور سکون کا گہوارہ بنا سکیں۔

ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
1. شوہر اپنی بیوی کو محبت اور عزت دے۔
2. بیوی اپنے شوہر کی اطاعت اور عزت کرے۔
3. میاں بیوی ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنے کا جذبہ رکھیں۔
4. بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔
5. ہر صورت میں صبر اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔

“ازدواجی زندگی میں ناچاقی کے اسباب اور ان کے معاشرتی نقصانات: قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی

حضرت علیؓ سے محبت ایمان کی علامت

“ازدواجی زندگی میں ناچاقی کے اسباب اور ان کے معاشرتی نقصانات: قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی

11 جنوری 2025

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے