بدھ 12 صفر 1447هـ
#خبریں

سوانح حیات : حضرت سید محمد خواجہ پیر حسینی جعفری القادری چشتی ؒ

بہ موقع ۱۵۷ واں سالانہ عرس مبارک
اقم الحروف: ڈاکٹر سید محمد حسینی جعفری القادری چشتی عفی عنہ
جانشینِ حضرت سجادہ نشین صاحب درگاہ خواجہ چمن شریف لال دروازہ حمام باولی حیدرآباد دکن الہند۔


معزز قارئین کرام سرزمین دکن اپنی قدیم تہذیبی تمدنی علمی عرفانی ادبی مذہبی خدمات کے لئے سارے عالم میں شہرت رکھتی ہے اس عظیم مردم خیز خطۂ ارض سے کئی نادر و نایاب گوہر اپنی تابناک کرنوں سے دین و مذہب اور علم و آدب کے ایوانوں کو رخشندہ و تابندہ بناتے رہے۔ یہ ان برگزیدہ مردانِ خدا کی سرزمین ہے جنہوں نے فرشِ زمین پر بیٹھ کر بندگانِ خدا کے قلوب پر حکمرانی کی یہ ان عظیم درویشوں اور صوفیوں کی سرزمین ہے جنہوں نے کفر و شرک کی یوریشوں کا طاقت ایمانی سے مقابلہ کیا اور نفرت کی آندھیوں میں محبت کے چراغ روشن کئے، ایسے ہی مردانِ خدا میں سے ایک عظیم صوفی بزرگ جیسے دنیا حضور خواجۂ قمر نگر ؒ قطب الاقطاب سلطان العارفین حضرت سید محمد خواجہ پیر حسینی جعفری القادری چشتی ؒ کے نامِ نامی سے جانتی ہے۔ ہم اس مضمون میں حضرت خواجہ پیر اولیاء ؒ کے نام سے تذکرہ کرینگے کیوں کہ بلادِ عرب میں آپؒ کو اسی نام سے جانا جاتا ہے۔

حضرت خواجہ پیر اولیاء ؒ والد گرامی کی طرف سے سید الشہداء امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کی اولاد سے ہیں اور والدہ ماجدہ کی طرف سے سیدنا امام عالی مقام امیرالمؤمنین سیدنا امام حسن علیہ السلام کی اولاد امجاد سے ہیں یعنی آپؒ نجیب الطرفین سادات سے ہیں، آپؒ کی تاریخ ولادت باسعادت ۷/ ذیقعدۃ الحرام ۱۱۹۲ھ کو (قمر نگر) کرنول میں ہوئی۔

آپ کے والد گرامی قدر کا اسمِ گرامی حضرت سید شاہ محمد خواجہ شمس الدین حسینی جعفری القادری چشتی ؒ ہے۔ حضرت خواجہ پیر اولیاءؒ کے والد محترم، دادا حضرت، اور دیگر دو اجداد کی مزارات کرنول شریف میں مرجع خلائق ہیں۔
حضرت خواجہ پیر اولیاء ؒ کے حیدرآباد دکن تشریف لانے کا واقعہ کچھ اسطرح بیان کیا جاتا ہے کے آپؒ اپنی خانقاہی نظام کی مصروفیات میں کرنول میں ہی قیام پذیر تھے۔ قدیم سوانح نگاروں کا کہنا ہے کے حضرت خواجہ پیر اولیاء ؒ ۴۰ برس تک ایک ساتھ اپنے بزرگوں کے طریقے پر مشغولِ عبادات و ریاضات رہے مطلب عبادات کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کیا اور ہمیشہ آپؒ کی آنکھیں سرخ اور تر رہتی تھی ۔ آپؒ کے علم اور کثیر کرامات کا بہت چرچہ تھا، ایک وقت بادشاہِ اسلام نظام پنجم نواب افضل الدولہ بہادرؒ نے درخواست بھیجی حضرت خواجہ پیر اولیاء ؒ کی خدمت میں کے حضرت خواجہ صاحب اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ حیدرآباد دکن تشریف لائیں حضرت خواجہ پیر اولیاء ؒ نے تو پہلے منع کیا بعد میں اصرار کرنے پر آپؒ حیدرآباد دکن ہجرت کے لئے تیار ہوگئے۔ حیدرآباد دکن ہجرت کرنے سے پہلے آپ ؒ نے اپنے فرزند اکبر حضرت سید شاہ محمد خواجہ جمال الدین حسینی جعفری القادری چشتی ؒ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خانقاہ شریف و لنگر کی درس و تدریس کی ذمہ داری سونپی اپنے دوسرے فرزندان حضرت سید شاہ محمد قطب الدین حسینی جعفری القادری چشتی خواجہ بدرالمشائخ ؒ و حضرت سید شاہ محمد خواجہ محی الدین پیر حسینی جعفری القادری چشتی خواجہ صبر المشائخؒ و حضرت سید شاہ محمد خواجہ اسحاق محی الدین حسینی جعفری القادری چشتی خواجہ فخر المشائخؒ ، و اپنی تینوں صاحبزادیوں، و اہل خانہ کے ہمراہ بیشمار فقراء و مریدین و معتقدین کے ہمراہ حیدرآباد دکن تشریف لائے۔
ایرانی گلی میں قیام فرمایا ایک کرایہ کا مکان لیکر رہے ۹ سال تک اسی مکان میں قیام فرمایا لیکن بادشاہِ وقت نواب افضل الدولہ بہادر کا اسرار تھا کے خانقاہ کی تعمیر کرنے کی حضرت خواجہ پیر اولیاء ؒ نے منع فرمایا۔ پھر حضرت خواجہ صاحب ؒ نے کونچۂ مشائخین ہری باؤلی سلطان شاہی شاہ علی بنڈہ علاقے میں ایک زمین خریدی وہاں پورے علاقے کو خانقاہ شریف میں تبدیل کیا سماع خانۂ خواجائی اسکا نام رکھا۔
حضرت خواجہ پیر اولیاء ؒ کی تعلیم و تربیت عہد طفولیت میں والد گرامی قدر و دادا حضرت سرکار سید شاہ محمد خواجہ پیر برھان اُلدین حسینی جعفری القادری چشتی ؒ کے زیر سایہ ہوئی بعدازاں دروس علمی تفسیر و احادیث و دیگر علومِ اسلامیہ اپنے زمانے کے نعتبر علماء کرام و اساتذہ اکرام سے حاصل کیا۔ آپؒ کا نکاح حضرت سید شاہ محمد جلال الدین حسینی بخاریؒ کی صاحبزادی سے ہوا تھا آپؒ کے چار فرزندان تین صاحبزادیاں ہیں، فرزندان کے اسمائے گرامی کا ذکر پہلے گزرچکا ہے۔ تین صاحبزادیوں کا ذکر خیر۔ ۱۔ صاحبزادی حضرت سید شاہ شرف الدین حسینی رضوی القادری معروف بہ حضرت شاہ شرفی ؒ کے فرزند دلبند حضرت سید شاہ غوث محی الدین حسینی رضوی القادری شرفی ؒ کے نکاح میں دئے تھے، آپ کی مزار شریف بھی حضرت غوث محی الدین شرفی ؒ کے پہلو میں آرام فرمارہی ہیں۔ ۲۔ صاحبزادی حضرت خواجہ سید شاہ معصوم پیر حسینی جعفری القادری چشتی ؒ ادونی کے فرزند دلبند حضرت سید شاہ میراں محی الدین حسینی جعفری القادری چشتی ؒ کے نکاح میں دئے تھے آپ حضرت معصوم پیر حسینی ؒ کے پائین میں آرام فرما ہیں کوڑیال پیٹ ادونی میں موجود ہے۔ ۳۔ صاحبزادی عہد شیر خواری ہی میں وصال فرما گئی ہیں۔
سماع خانۂ خواجائی کی تعمیر کے بعد حضرت خواجہ صاحبؒ نے لنگر کا آغاز کیا۔ بندگانِ خدا جو بھی حاضر ہوتے انکی لنگر کے ذریعہ ضیافت کی جاتی اور انکی مکمل تعلیم و تربیت کا انتظام فرماتے بندگانِ خدا کے قلوب کو نورِ ایمانی سےطمنور فرماتے قرب خداوند کریم کی راہ بتاتے مشائخ قادریہ و خواجگانِ چشت اہل بہشت کی تعلیمات کو عام کرنے مختلف تدابیر آپؒ نے اختیار کی ذکر و اذکار طریقۃ القادریہ گیسودرازیہ کے طریقے پر منعقد کرتے تھے دن سارا سماع خانۂ خواجائی میں قیام رہتا تھا رات عبادات و ریاضات کیلئے بیرون لال دروازہ حمام باولی کے قریب ایک مقام کو آپؒ نے اپنے مخصوص عبادات و ریاضات کیلئے پسند کیا تھا، جو علاقہ راجا رائے را کا علاقہ تھا۔ مقامی لوگوں نے راجا رائے را کو اطلاع دی راجا صاحب نے ملاقات کی خواہش کی خواجہ صاحبؒ نے عرض کی راجا کو فقیر سے کیا کام تو راجا صاحب نے عرض کیا صرف حضرت قدم بوسی کرنا مقصد ہے خواجہ صاحبؒ نے فرمایا ٹھیک ہے قدم یہاں ہے چوم لیں اور رخصت ہوجائیں، راجا صاحب نے حاضر ہوکر خواجہ صاحبؒ کی خدمت میں کچھ اشرفیاں نظر پیش کرنی چاہی تو خواجہ صاحبؒ نے کہا راجا فقیر دنیا کو ٹھوکر مار کر بیٹھا ہے اور تم راجا صاحب یہی دنیا آپ مجھے پیش کررہے ہیں راجہ نے جب مجبور کیا تو خواجہ صاحبؒ نے فرمایا راجا جی اللہ پاک نے فقیر کی ٹھوکر میں خزانے رکھے ہیں پھر اس دیوار پر ٹھوکر ماری جسکو آپ ٹیک لگا کر تشریف فرما ہوتے تھے ٹھوکر مارنے کے بعد ایک سوراخ ہوا راجا صاحب کو خواجہ پیر اولیاء ؒ نے کہا راجا جی اس سوراخ میں دیکھیں جب راجا نے دیکھا تو تا حدے نظر اشرفیوں کی ڈھیر نظر آئی پھر راجا نے مجبور کرکے خواجہ صاحبؒ کو وہ زمین نظر کی جس پر آپؒ عبادات و ریاضات کیلئے پسند کیا تھا آج بھی آپؒ کی مزار شریف بھی وہیں درگاہ خواجہ چمن شریف بیرون لال دروازہ حیدرآباد دکن میں موجود ہے۔ چند ایک واقعات آپ معزز قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔حضور خواجہ پیر اولیاء ؒ کی ایک معروف کرامت
حضرت خواجہ صاحبؒ کی خانقاہ میں ہمیشہ لنگر کا سلسلہ جاری رہتا تھا اور ہمیشہ ۱۰۰ فقرا آپ کے ساتھ ہی اس خانقاہ میں ہی قیام فرما تھے جو کرنول سے تشریف لائے تھے ایک وقت کا واقعہ ہے حضرت خواجہ صاحبؒ لال دروازہ حمام باولی کے علاقے سے تین دن تک سماع خانۂ خواجائی نہیں پہنچے تھے یہاں پر اہل خانہ اور تمام فقراء وغیرہ فاقہ کشی کررہے تھے خواجہ صاحبؒ جب خانقاہ شریف پہنچے تو وہاں پتہ چلا کے تین دن سے فاقے گزر رہے تھے آپ نے فرمایا کے اللہ پاک رزاق ہے ایسا نہیں ہوسکتا پھر خواجہ صاحبؒ نے اپنے خدام سے کہا کے چلوں خانقاہ شریف کی باؤلی سے پانی نکالا اور اپنے دامن سے چھانا جو پانی چھن کر نکلا تو پتہ چلا کہ دامن مبارک سے سے تو پانی دودھ بن کر نکلا اور سب کے سب شکم سیر ہوکر دودھ نوش کۓ پتہ چلا کہ اللہ پاک اسباب کا محتاج نہیں ہے وہ جس سے چاہے رزق عطا فرمائے بیشمار افراد نے اس واقعہ کو دیکھا اور کہنے لگے کے جب محبوبِ خدا دعا کریں تو ہر صورت کرامات کا ظہور ہوتا ہے ناممکن تو ممکن بناتا ہے جو بندے خداوند کریم کے ہوجاتے ہیں ہیں خداوند کریم انکا ہوجاتا ہے انکی زبان یا اشارہ سے کیا ہوا عمل قدرت کے پاس حکمِ محبوبِ خدا کا درجہ رکھتا ہے۔ بہت سے لوگ اس باؤلی کو خواجہ صاحب کی دودھ والی باؤلی کہتے تھے ۔


ایک اور معروف واقعہ جو ایک عظیم کرامت ہے آپؒ کی پانی سے چراغ روشن کرنا ۔
ایک وقت خواجہ پیر اولیاء ؒ سماع خانۂ خواجائی میں رات کے وقت تھے اندھیرا کافی ہوگیا تھا حضرت خواجہ پیر اولیاءؒ نے فرمایا کے چراغ روشن کریں عرض کی گئی کے گھر میں تیل دستیاب نہیں ہے خواجہ صاحبؒ نے فرمایا نہیں اندھیرا جہالت کی نشانی ہے پانی لاؤ تو پانی حاضر کیا گیا آپؒ نے چراغوں میں تیل کی جگہ پانی ڈالا اور کہا سب اللہ کا نام لیکر چراغ روشن کریں جب آپؒ نے روشن کیا سارے چراغ روشن ہوگئے اور تمام شب جلتے رہے پھر خواجہ صاحبؒ نے فرمایا جب خداوند متعال کی جانب سے عطا کردہ علم اپنے اندر سراہت کرجاتا ہے تو ہر صورت روشنی ہونا لازمی ہے کیونکہ علم ایک روشنی ہے۔ حضرت خواجہ پیر اولیاءؒ حیدرآباد دکن کے بہت معروف صوفی بزرگ گزرے ہیں آپؒ نے بہت سی کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں جنکا ذکر کرنا میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں ۱۔ صراط مستقیم ۲۔ تصوف کے اقسام ۳۔ شہادت نامہ امام حسین علیہ السلام ۴۔ مقامِ غوثیتِ کبری ۵۔ علم حکمت یونانی ۶۔ علمِ سبع سیارے وغیرہ وغیرہ ہیں۔
حضرت خواجہ صاحبؒ ہمیشہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی محبت کی تعلیم دیتے اور سب کو اطبع رسول ﷺ و اہلبیت و صحابہ رضی اللہ عنہم کی تاکید کرتے رہتے تھے اور فرماتے جس گھر میں اہلبیت اطہار علیہم السلام کا تذکرہ نہ ہو اس گھر میں بچے بےغیرت اور بے ادب پیدا ہوتے ہیں جس گھر ماں باپ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا تذکرہ نہ ہو اس گھر کے لوگ جھوٹ کی طرف مائل نہ انصافی میں محو بےشرمی و بےحیائی میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ خدارا اپنے گھروں کو قبرستان کی طرح نہ بنائیں اپنے اسلاف کا تذکرہ کرتے رہیں تاکے اپنی قوم کو گمراہیوں سے محفوظ رکھے۔
علم و عرفان کا یہ یک عظیم چراغ اپنی ۹۷ سالہ حیات مبارکہ میں مختلف علمی و روحانی خدمات کو روشن کرکے ہزاروں بندگانِ خدا ہے قلوب کو منور و مجلہ کرکے ۲۹/ جمادی الاول ۱۲۸۹ھ بروزِ جمعرات کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپؒ کا مزارِ پر انوار درگاہ خواجہ چمن شریف بیرون لال دروازہ حمام باولی حیدرآباد دکن میں مرجع خلائق ہے۔ حضرت خواجہ پیر اولیاء ؒ راقم الحروف کے ۵ جد امجد اور راقم الحروف کے والد گرامی شیخ طریقت حضرت مولانا خواجہ سید محمد عبدالغنی حسینی جعفری القادری چشتی حسن بابا صاحب سجادہ نشین پنجم درگاہ خواجہ چمن شریف ہیں۔ اللہ پاک ہم سب ان عظیم بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنا نصیب فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہ سید الاولین و الآخرین ﷺ

سوانح حیات : حضرت سید محمد خواجہ پیر حسینی جعفری القادری چشتی ؒ

غوث نگر اسکول میں فرّوق سلطانہ کی

سوانح حیات : حضرت سید محمد خواجہ پیر حسینی جعفری القادری چشتی ؒ

23-نومبر۔2024

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے