اولاد کے درمیان عدل و انصاف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

مولانا محمد ریاض احمد قادری حسامی
(ناظم مدرسہ اسلامیہ ریاض العلوم فلک نما)
ہم صبح و شام والدین سے سنتے ہیں کہ ہماری اولاد وفادار نہیں فرمانبر دار نہیں‘ جبکہ اگر کوئی والدین سے پوچھ لے کہ کیا آپ اپنے بچوں کیلئے وفادار ہیں تو کیا اس کا ان کے پاس کیا جواب ہوگا ۔مذہب اسلام جہاں اولاد کو والدین کی اطاعت و فرمانر داری کیلئے پابند کرتا ہے وہیں پر والدین کو بھی ان کے حقوق اور تقاضوں کیلئے پابند کرتا ہے ۔اسلام نے والدین اور اولاد کے درمیان تعلقات کو انتہائی اہمیت دی ہے۔ قرآن اور حدیث میں والدین کو بچوں کے ساتھ حسن سلوک، عدل، اور برابری کا حکم دیا گیا ہے۔ سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ (القرآن 66:6) یہ آیت نہ صرف والدین کو ان کی ذمہ داریوں کی یاد دلاتی ہے بلکہ انہیں یہ بھی بتاتی ہے کہ بچوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم دینا اور ان کی اخلاقی و دینی تربیت کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عدل اور مساوات پر زور دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (صحیح بخاری)
اس حدیث سے والدین کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یکساں محبت اور توجہ دیں، اور کسی ایک بچے کو ترجیح دینا یا کسی کو نظرانداز کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
حضرت یوسفؑ کا قصہ: والدین کے انصاف کی اہمیت
حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے جن میں حضرت یوسفؑ اور ان کے چھوٹے بھائی حضرت بنیامین کو وہ بےحد عزیز رکھتے تھے۔ پیغمبر اپنی پیغمبرانہ صلاحیت اور غیبی اشارے سے آنے والے پیغمبر کو بھانپ لیتا ہے۔ چنانچہ حضرت یعقوبؑ نے بھی محسوس کرلیا تھا کہ میرے بعد یوسف کو ہی پیغمبر بنایا جانا ہے اور بنیامین کو ان کا معاون۔ اس ضمن میں ان پر خصوصی توجہ دیتے تھے، جو ان کےدیگر بھائیوں کو ناگوار گزرا اور انہوں نے محسوس کیا کہ والد کا جھکاؤ یوسف اور بنیامین کی طرف زیادہ ہے، اور انہوں نے اس بات کو اپنے دل میں حسد کی شکل میں پال لیا۔ اس حسد نے ان کے دلوں میں بھائی چارے کی بجائے رنجش پیدا کردی اور نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے حضرت یوسفؑ کو اپنے والد سے جدا کرنے کا منصوبہ بنایا۔
حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے ایک دن حضرت یعقوبؑ سے یہ درخواست کی کہ انہیں یوسف کو ان کے ساتھ جنگل لے جانے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ کھیل سکیں۔ حضرت یعقوبؑ کو یوسفؑ کی حفاظت کا اندیشہ تھا، مگر انہوں نے اپنے بیٹوں کی اس درخواست کو قبول کر لیا۔ جب وہ بھائی حضرت یوسفؑ کو لے کر جنگل پہنچے تو انہوں نے انہیں ایک کنویں میں پھینک دیا اور گھر آ کر اپنے والد سے جھوٹ بولا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔
حضرت یوسفؑ کے کنویں میں پھینکے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی، اور کچھ ہی دنوں بعد ایک قافلہ وہاں سے گزرا جس نے حضرت یوسفؑ کو کنویں سے نکال کر مصر لے جا کر فروخت کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کو اس آزمائش میں ثابت قدم رکھا اور بعد میں انہیں مصر کے بادشاہ کے دربار میں اعلیٰ مقام دیا۔
یہ قصہ ہمیں سکھاتا ہے کہ والدین کا اپنے بچوں کے درمیان محبت اور شفقت میں انصاف اور برابری برتنا کس قدر ضروری ہے۔ حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کے دلوں میں والد کی جانب سے غیر معمولی توجہ اور محبت کی وجہ سے حسد اور رنجش پیدا ہوئی، جس نے انہیں ناحق کاموں کی طرف دھکیل دیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر والدین بچوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئیں تو بچوں کے درمیان محبت و بھائی چارہ برقرار رہتا ہے، اور وہ نیک و صالح راستے پر چلتے ہیں۔
اسلام نے اس قصے کے ذریعے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ بچوں کے درمیان محبت اور توجہ میں کسی قسم کی تفریق سے بچنا چاہیے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے حسد یا رنجش نہ رکھیں اور والدین کے لیے احترام کا جذبہ برقرار رہے۔
معاشرتی اثرات: نفرت اور رنجشوں کا فروغ
معاشرتی طور پر بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور نظر انداز کرنے کے رویے سے کئی منفی نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ جو بچے نظرانداز ہوتے ہیں، ان کے دلوں میں والدین اور بھائیوں بہنوں کے لیے رنجش پیدا ہوسکتی ہے۔ اس طرح کے رویے کی وجہ سے بچے باغی بن سکتے ہیں اور معاشرتی طور پر بے اعتمادی اور دشمنی کو فروغ دیتے ہیں۔ جدید تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جو بچے والدین کی توجہ اور محبت سے محروم رہتے ہیں، ان میں غصہ، عدم اعتماد اور جذباتی اضطراب کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بچے اکثر سماجی ناہمواریوں کا شکار بن جاتے ہیں اور اپنے اندر ناراضگی اور مایوسی محسوس کرتے ہیں، جس کا اثر ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی پر بھی پڑتا ہے۔
اسلام کی تعلیمات کے مطابق والدین کا کردار
والدین کو اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے بچوں کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کرنا چاہیے۔ بچوں کے درمیان کسی قسم کی تفریق اور امتیازی سلوک کرنا اسلام میں منع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ عدل کو پسند فرماتا ہے۔ (القرآن 16:90)اس حدیث کی روشنی میں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ مساوی سلوک کریں تاکہ ان کے دلوں میں کسی قسم کی ناپسندیدگی یا رنجش پیدا نہ ہو۔
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو مکمل توجہ دیں اور انہیں یہ محسوس کروائیں کہ وہ ان کے لیے اہم ہیں۔ بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ والدین کو بچوں کے ساتھ اس طرح پیش آنا چاہیے کہ ان کے دلوں میں والدین کے لیے احترام اور محبت پیدا ہو۔
والدین کے لیے چند عملی نصائح
ہر بچے کو یکساں وقت اور توجہ دیں: بچوں کے ساتھ وقت گزارنا اور انہیں محسوس کروانا کہ وہ برابر کی اہمیت رکھتے ہیں، والدین کا فرض ہے۔
شفقت اور پیار میں عدل: بچوں کے ساتھ شفقت میں برابری کریں اور کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت نہ دیں۔
بچوں کو مذہبی تربیت دینا: بچوں کو اسلامی تعلیمات سکھائیں تاکہ وہ معاشرتی اور اخلاقی طور پر مضبوط شخصیت بن سکیں۔
اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے والدین اپنے بچوں کو سماج میں عزت و احترام دلوا سکتے ہیں۔ والدین کا منصفانہ رویہ نہ صرف خاندان بلکہ پورے معاشرے میں امن و محبت کا سبب بن سکتا ہے۔ جب والدین اپنے بچوں کے ساتھ عدل و انصاف کریں گے، تو اس سے بچوں میں بھی برابری کا جذبہ پیدا ہوگا اور وہ بڑے ہو کر بھی اسی طرح کی عادلانہ شخصیت کے مالک بنیں گے۔
لہذا، اسلام ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ محبت، توجہ اور عدل کا رویہ اپنائیں تاکہ معاشرہ امن، بھائی چارے اور محبت کا گہوارہ بن سکے۔ اس سے نہ صرف بچوں کی شخصیت نکھر سکتی ہے بلکہ پورے خاندان اور معاشرے میں بھی مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں۔
اگر ہم جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بحیثیت والد اپنے بچوں کے لیے ایک کامل نمونہ ہیں، اور حضرت خدیجہؓ نے بحیثیت ماں اولاد کی پرورش میں محبت اور شفقت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ حضرت فاطمہؓ، جو رسول اللہ ﷺ کی بیٹی تھیں، اور ان کے بیٹے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کا رویہ ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔
رسول اللہ ﷺ اپنی اولاد کے ساتھ بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ حضرت فاطمہؓ کو آپ ﷺ سے خاص محبت تھی اور آپ ﷺ بھی ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ جب حضرت فاطمہؓ آپ ﷺ کے پاس آتیں، تو آپ ﷺ کھڑے ہوکر ان کا استقبال کرتے، ان کے ماتھے پر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ یہ عمل نہ صرف محبت کا اظہار تھا بلکہ اس سے آپ ﷺ نے امت کو بتایا کہ اولاد کا احترام کیسے کیا جاتا ہے۔
حضرت خدیجہؓ نے نہایت محبت اور حکمت کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت کی۔ ان کا کردار محبت اور شفقت کے ساتھ ساتھ دین کے حوالے سے بھی مضبوط تھا۔ انہوں نے اپنے بچوں کو نبی کریم ﷺ کے ساتھ مل کر ایمان، صبر اور دین کی محبت سکھایا۔ حضرت فاطمہؓ کی تربیت میں ان کی والدہ کا بڑا کردار تھا، اور ان کی شخصیت میں حضرت خدیجہ کی تربیت کا اثر نظر آتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے بےحد محبت کرتے تھے اور انہیں خاص اہمیت دیتے تھے۔ ان کے ساتھ کھیلتے، انہیں اپنی پیٹھ پر سوار کرتے اور مسجد میں خطبہ کے دوران بھی اگر وہ قریب آجاتے تو آپ ﷺ انہیں اٹھا لیتے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (ترمذی) یہ الفاظ آپ ﷺ کی ان سے محبت کا عظیم مظہر ہیں اور اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ والدین اور دادا دادی کو اپنی اولاد اور نواسوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کرنا چاہیے۔
نبی ﷺ نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے ساتھ جو محبت بھرا رویہ اختیار کیا، اس سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ بچوں کے ساتھ محبت کا اظہار ان کے اعتماد اور شخصیت کو نکھارنے کے لیے ضروری ہے۔ بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنا، انہیں عزت دینا، ان کی تربیت میں محبت اور احترام کو شامل کرنا اسلامی معاشرتی تربیت کا حصہ ہے۔نتیجہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت خدیجہؓ نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت بھرا رویہ اپنایا، وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہے اور والدین کے لیے ایک نمونہ ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف اپنے بچوں کے لیے محبت اور شفقت کو فروغ دیا بلکہ پوری امت کو یہ پیغام دیا کہ اولاد کی تربیت میں محبت اور احترام بنیادی اصول ہونے چاہئیں۔ اس طرح اسلامی معاشرے میں ایک مضبوط اور محبت بھرا رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے جو بچوں کی تربیت اور ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
لیکن اس کے برخلاف والدین کا رعب اور دباؤ بچوں پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے، جس سے ان میں اعتماد کی کمی، نفسیاتی مسائل، بغاوت اور رشتہ میں فاصلے پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسلام نے والدین کو بچوں کے ساتھ نرمی، محبت اور سمجھداری سے پیش آنا سکھایا ہے۔ قرآن اور حدیث میں والدین کو بچوں کے جذبات اور احساسات کا احترام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں سے بات کرنے میں پہل کریں، ان کے خیالات سنیں اور ان کے ساتھ مشورہ کریں تاکہ بچوں میں عزت نفس اور اعتماد پیدا ہو۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ محبت بھرا اور متوازن سلوک اختیار کریں تاکہ خاندان میں امن اور محبت کا ماحول قائم ہو۔ اس کے علاوہ، بچوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا اور انہیں یکساں توجہ دینا بھی ضروری ہے تاکہ ان کے درمیان حسد اور اختلافات نہ ہوں۔
بعض اوقات والدین اپنی محبت یا رعب میں اتنی زیادتی کر دیتے ہیں کہ وہ سمجھدار یا دیندار بچوں کو مسلسل دباؤ میں رکھتے ہیں، خاص طور پر جب وہ اپنے والدین کی خواہشات یا روایات کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے بچوں کی دیانتداری اور سمجھداری کا فائدہ اٹھا کر والدین انہیں زیادہ سے زیادہ دبانے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ ایک نقصان دہ رویہ بن سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بچوں کے ساتھ شفقت و محبت کا سلوک کیا اور ان کی ذہنی و جذباتی ضروریات کو سمجھا۔ ایک بچہ اگر دیندار یا سمجھدار ہو، تو والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کی ذہنی اور جذباتی صلاحیتوں کا احترام کریں، نہ کہ اسے مسلسل دباؤ میں رکھیں۔ اگر والدین کسی بچے کو مسلسل دباؤ میں رکھتے ہیں، تو وہ بچے کے اندر غم، اضطراب، یا بغاوت پیدا کر سکتے ہیں، جس کا اثر ان کی ذہنی سکون اور زندگی کے دیگر شعبوں پر پڑتا ہے۔
٭ ٭ ٭