بدھ 12 صفر 1447هـ
#حیدرآباد #مضامین

ناشکری اور بے برکتی: وجوہات اور اثرات


مولانا محمد ریاض احمد قادری حسامی
(ناظم مدرسہ اسلامیہ ریاض العلوم فلک نما)
اسلامی تعلیمات میں شکرگزاری کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے اور اسے ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اور شکر کرو اللہ کا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو (سورہ بقرہ: ۱۷۲) اسی طرح، ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:’’ "اور اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے (سورہ ابراہیم: ۷)
یہ آیات ہمیں شکرگزاری کی اہمیت بتاتی ہیں کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے وہ نعمتیں بڑھتی ہیں، جب کہ ناشکری کی وجہ سے اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ احادیث میں بھی شکرگزاری کی تلقین کی گئی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کو سب سے زیادہ پسند وہ بندہ ہے جو شکر گزار ہو اور قناعت کرنے والا ہو۔
اسلامی تاریخ اور انبیاء کے واقعات میں ہمیں کئی ایسی مثالیں ملتی ہیں جو ناشکری کی وجوہات اور اس کے برے اثرات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
دین سے دوری:دین سے دوری اور اللہ کے احکام سے ناواقفیت انسان کو ناشکری کی طرف لے جاتی ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں، ہابیل اور قابیل کا واقعہ ناشکری کے حوالے سے ایک اہم سبق ہے۔ ہابیل نے اپنے رزق میں قناعت اختیار کی اور اللہ کے لئے بہترین قربانی پیش کی، جسے اللہ نے قبول کیا۔ لیکن قابیل نے حسد اور ناشکری کی وجہ سے ناقص قربانی پیش کی، جسے اللہ نے قبول نہ کیا۔ اس واقعے میں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور قبولیت کے لئے دل میں شکرگزاری اور خلوص ہونا ضروری ہے۔ قابیل کی ناشکری اور حسد نے اسے اپنے بھائی کا قاتل بنا دیا اور وہ بے برکتی کا شکار ہوا۔
دنیاوی حرص و لالچ: حرص و لالچ بھی انسان کو ناشکری کی طرف مائل کرتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں بنی اسرائیل کو اللہ نے بے شمار نعمتیں عطا کیں، جن میں من و سلویٰ بھی شامل ہے۔ لیکن انہوں نے ناشکری کرتے ہوئے اس نعمت سے انکار کیا اور طرح طرح کی دوسری غذائیں مانگیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ناشکری کی وجہ سے ان پر عذاب نازل کیا اور انہیں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا۔ یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو حقیر سمجھنا اور ان سے ناراض ہونا کس قدر سنگین گناہ ہے، جس کا انجام بے برکتی اور عذاب کی صورت میں نکلتا ہے۔
صبر کی کمی: صبر کی کمی بھی ناشکری کا باعث بنتی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مال، اولاد اور صحت کی کثرت عطا فرمائی تھی، مگر جب آزمائش آئی تو وہ تمام نعمتیں چھن گئیں۔ لیکن حضرت ایوب علیہ السلام نے کبھی ناشکری نہیں کی، بلکہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کیا اور صبر کا دامن تھامے رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے صبر اور شکرگزاری کی بدولت ان کی صحت اور مال و اولاد کو دوبارہ عطا کیا۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مصیبت کے وقت بھی اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکرگزاری کرنی چاہئے تاکہ اللہ مزید برکت عطا کرے۔
تقدیر پر ایمان کی کمزوری:تقدیر پر ایمان کی کمزوری بھی انسان کو ناشکری کی طرف لے جاتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ نے بہت سی نعمتیں عطا کیں، جیسے جنات، ہوا، اور جانوروں پر قابو۔ ایک موقع پر جب انہوں نے چیونٹیوں کو باتیں کرتے سنا تو فوراً اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں ایسی طاقتیں عطا کیں۔ ان کی شکرگزاری کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں مزید عزت اور مرتبہ عطا کیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جو کچھ بھی ہمیں عطا ہو، اسے اللہ کا فضل سمجھنا چاہئے اور ہر لمحہ شکر گزار رہنا چاہئے۔
بے برکتی: ناشکری کے سبب اللہ کی برکتیں ختم ہو جاتی ہیں۔حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی زندگی قناعت اور شکرگزاری کی اعلیٰ مثال ہے۔ انہوں نے دنیاوی مال و متاع سے بے نیاز ہو کر زندگی گزاری اور ہمیشہ اللہ کے دیے ہوئے رزق پر راضی رہے۔ ان کی یہ عادت اللہ کی برکتوں کا ذریعہ بنی اور ان کے دل میں ہمیشہ اطمینان رہا۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی زندگی میں قناعت اور دنیا سے بے نیازی کا ایک نمایاں واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ دنیاوی مال و دولت سے کنارہ کشی اختیار کی۔ انہیں دنیاوی ساز و سامان اور مال و متاع سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور وہ ہمیشہ سادہ زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ ایک موقع پر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ:”یا رسول اللہ! مجھے وصیت کریں۔”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قناعت اور کم بولنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ قناعت کرنے والا ہمیشہ مطمئن رہے گا۔حضرت ابوذر نے اس نصیحت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا اور اپنے دل میں ہمیشہ قناعت اور شکر گزاری کو جگہ دی۔ انہوں نے کبھی دنیا کے مال و متاع کو حاصل کرنے کی خواہش نہیں کی، بلکہ جو کچھ اللہ نے انہیں عطا کیا تھا، اس پر ہمیشہ راضی رہے۔اسی طرح حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ دنیاوی مال و دولت سے بے نیازی اور قناعت سے زندگی بسر کی جائے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب انسان اللہ کی تقسیم پر راضی ہوتا ہے، تو اللہ اسے بے برکتی اور حسد سے بچاتا ہے اور دل کو اطمینان عطا کرتا ہے۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی زندگی واقعی میں قناعت اور شکر گزاری کی اعلیٰ مثال ہے، جس سے ہمیں نصیحت ملتی ہے کہ ہمیں بھی اللہ کی نعمتوں پر قانع رہنا چاہیے تاکہ اللہ کی برکتیں ہم پر نازل ہوں۔
روحانی سکون کا فقدان: جب انسان شکرگزار ہوتا ہے تو اللہ اس کے دل میں سکون اور اطمینان عطا کرتا ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا تھا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستے میں بے شمار مال عطا کیا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی جتنا ممکن ہوا، اللہ کے دین کے لئے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قربانی اور شکرگزاری کو قبول کیا اور انہیں دنیا و آخرت کی برکتوں سے نوازا۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مال اور دیگر نعمتیں اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرنا بے برکتی کو دور کرتا ہے اور اللہ کی برکتوں کو بڑھاتا ہے۔
اللہ کی ناراضگی: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب شدید ہے”۔ اس کے برعکس، جو بندہ شکرگزار ہوتا ہے اللہ اسے مزید نعمتیں عطا کرتا ہے۔ طائف کے واقعے میں جب اہل طائف نے حضور ﷺ کو تکلیف پہنچائی، تو آپ ﷺ نے شکایت کرنے کے بجائے اللہ سے ان کی ہدایت کی دعا کی۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ شکرگزاری اور بردباری اللہ کی رضا کا سبب بنتی ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا” (ترمذی)۔ اس حدیث سے شکرگزاری کی سماجی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے کہ ہمیں نہ صرف اللہ بلکہ لوگوں کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے۔
قرآن مجید میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں دی ہیں اور شکر گزار رہو اللہ کے اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو (سورہ بقرہ: ۱۷۲)
ناشکری سے بچنے کے لئےکچھ اہم تدابیر:
(۱) اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر غور کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔
(۲) ذکر و دعا کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
(۳) قناعت پسندی اختیار کریں اور دنیاوی حرص سے بچیں۔
(۴)تقدیر پر مضبوط ایمان رکھیں اور اللہ کے فیصلوں پر راضی رہیں۔
اسلامی تعلیمات میں شکر گزاری کو بہت اہم مقام حاصل ہے، اور نہ صرف اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری بلکہ مخلوق، خاص کر والدین، میاں بیوی اور دیگر رشتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور شکر گزاری کی تعلیم بھی دی گئی ہے۔ قرآن و سنت میں ہمیں متعدد مقامات پر یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ہمیں اپنے قریبی لوگوں کے احسانات کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
والدین کے شکر گزار ہونا: اسلام میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو عظیم عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں والدین کے ساتھ شکر گزاری اور نرمی سے پیش آنے کی تاکید کی ہے:
’’”اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے… (سورۃ لقمان: ۱۴)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور شکر گزاری کا حکم دیا ہے اور یہاں تک فرمایا ہے کہ اگرچہ والدین اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا حکم دیں تو اس حکم کی تعمیل نہ کی جائے، مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ نرمی اور حسن سلوک برقرار رکھا جائے۔
شوہر اور بیوی کے درمیان شکر گزاری: شادی شدہ زندگی میں شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور شکر گزاری کا رویہ گھر کی خوشیوں اور برکتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔ _(ترمذی)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر اور بیوی کو بھی ایک دوسرے کی محنت، قربانی اور محبت کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ جب شوہر محنت کر کے رزق کما کر لاتا ہے تو بیوی کو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، اور جب بیوی گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی تربیت کرتی ہے تو شوہر کو بھی اس کی تعریف اور شکر گزاری کا اظہار کرنا چاہیے۔ یہ رویہ میاں بیوی کے درمیان محبت اور اعتماد کو بڑھاتا ہے اور گھر میں سکون اور برکت پیدا کرتا ہے۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی بیوی کا واقعہ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک اہم واقعہ ہمیں شکرگزاری کی اہمیت کے حوالے سے بڑا سبق دیتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے حکم کے مطابق مکہ میں چھوڑا، تو کئی عرصے بعد وہ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لئے آئے۔ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بہو سے ان کے حالات پوچھے۔ انہوں نے شکایت بھری باتیں کیں کہ زندگی میں تنگی اور مشکلات ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیغام دیا کہ "اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دو”۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ ان کے والد نے انہیں اپنی بیوی کو چھوڑ دینے کی نصیحت کی ہے، چنانچہ انہوں نے ان کی ہدایت پر عمل کیا۔ بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دوسری شادی کی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ آئے اور اپنی بہو سے حالات پوچھے تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور حالات کی تعریف کی۔ اس بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیغام دیا کہ "اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھو”۔ اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ناشکری کا رویہ اللہ کی برکتوں کو روکتا ہے جبکہ شکرگزاری سے خوشحالی آتی ہے۔گھروں کے اندر ناشکری اور بدگمانی کے رویے سے بے برکتی اور مسائل بڑھ سکتے ہیں۔
ناشکری کے انسانی زندگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ انسان کو روحانی و دنیاوی نقصان پہنچاتی ہے۔
رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ شکر گزاری: اسلام میں رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ جب کوئی شخص ہماری مدد کرے یا ہمیں اچھا مشورہ دے، تو ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ یہ چیز تعلقات میں مضبوطی پیدا کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی تمہارے ساتھ بھلائی کرے تو اس کا شکریہ ادا کرو، اور اگر تمہارے پاس اس کا بدلہ دینے کے لیے کچھ نہیں تو اس کے لیے دعا کرو۔” (ابو داؤد)
عام مخلوق کے ساتھ شکر گزاری: اسلام میں نہ صرف رشتہ داروں بلکہ عام لوگوں کے ساتھ بھی اچھے اخلاق، شکر گزاری اور نرمی کا برتاؤ کرنا پسندیدہ عمل ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اور اللہ کو وہ شخص سب سے زیادہ محبوب ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔” (مشکوۃ)
اسلام ہمیں نہ صرف اللہ کا شکر گزار بننے کی تعلیم دیتا ہے بلکہ مخلوق کے ساتھ بھی حسن سلوک، احترام اور شکر گزاری کا رویہ اپنانے کی تاکید کرتا ہے۔ ہمیں اپنے والدین، میاں بیوی، دوستوں اور دیگر لوگوں کی طرف سے کی گئی محنت اور احسانات کو سراہنا چاہیے، کیونکہ یہ رویہ نہ صرف تعلقات کو مضبوط بناتا ہے بلکہ اللہ کی برکتوں کا باعث بھی بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ناشکری سے بچائے اور ہمیں شکر گزار بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین۔
٭ ٭ ٭

ناشکری اور بے برکتی: وجوہات اور اثرات

9 نومبر 2024 اردو

ناشکری اور بے برکتی: وجوہات اور اثرات

550 واں عرس حضرت سید شاہ احمد

Leave a comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے